يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
اے افراد نسل انسانی ! زمین میں جس قدر حلال اور پاکیزہ چیزیں (تمہاری غذا کے لیے) مہیا کردی گئی ہیں شوق کسے کھاؤ اور (یہ جو لوگوں نے اپنے وہموں خیالوں سے طرح طرح کی رکاوٹیں اختیار کر رکھی ہیں تو یہ شیطانی وسوسے ہیں۔ تم) شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے
فہم القرآن : ربط کلام : یہاں پہلی آیات کے ساتھ معنوی ربط پایا جارہا ہے۔ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر شرک اور حرام وحلال کا مسئلہ ایک ہی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ [ الانعام : 137تا 140۔ النحل :35] آیات ملاحظہ فرمائیں۔ حلال وطیب کھانے کے بارے میں قرآن مجید نے بنی نوع انسان کے تینوں طبقات کو مخاطب کرتے ہوئے ایک جیسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ آغاز میں عوام الناس کو مخاطب کیا جارہا ہے اور اس کے بعد ٹھیک چوتھی آیت میں مومنوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ سورۃ المومنون آیت 51میں انبیاء کی مقدس جماعت کو خطاب کرتے ہوئے حلال کھانے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ جب تک اس پر اپنے اپنے مقام پر سب لوگ عمل نہیں کرتے توحید کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے اور نہ معیشت کرپشن سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ اس مسئلے کا تعلق بیک وقت حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ساتھ ہے۔ حقوق اللہ کے ساتھ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک جسم کی عبادت ہی قبول کرتا ہے۔ حلال، طیب کھانے والا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی میں لذت محسوس کرتا ہے‘ اس کے دل میں سرور، طبیعت میں استغناء، دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے کے ساتھ سخاوت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ حقوق العباد کے ساتھ تو اس کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ جب معاشرے میں حلال وحرام کی تمیز اٹھ جائے تو معاشی استحاصل‘ ڈاکہ‘ چوری‘ دھوکہ دہی‘ فریب کاری کی وارداتیں عام ہوجاتی ہیں۔ جس سے معاشی ناہمواری کے ساتھ سماجی زندگی تباہی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ اس لیے تمام لوگوں کو بیک وقت حلال، طیب کھانے کی تلقین کی جارہی ہے۔ خوراک ظاہری گندگی سے پاک نہ ہو تو جسمانی بیماریاں پیدا ہوں گی۔ کھانے اور کمانے میں شریعت کا لحاظ نہ رکھا جائے تو روحانی زندگی اور اخلاقی قدریں اس قدر کمزور ہوجاتی ہیں بالآخر آدمی زندہ ہونے کے باوجوداس کے روح کی موت اور اجتماعیت بکھر کررہ جائے گی اور یہی شیطان کا مقصد ہے۔ لہٰذا حرام کھانے والا شیطان کے قدم بقدم چلتا ہوا دنیا میں ذلیل اور حریص کہلوائے گا اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنے گا۔ اس لیے متنبہ کیا جارہا ہے کہ شیطان تمہارا ابدی دشمن ہے اس سے ہر صورت بچ کر رہنے کی کوشش کرتے رہنا اور کوئی غیرت مند آدمی اپنے دشمن کی چال میں نہیں آیا کرتا۔ حرام خوری کے نقصانات : رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : (لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ‘ اَلنَّارُ أَوْلٰی بِہٖ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند جابر بن عبد اللّٰہ] ” حرام سے پلنے والا جسم جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اسے آگ زیادہ لائق ہے۔“ حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم {ﷺ}کا ارشاد ہے : ” لوگو! یقیناً اللہ پاک ہے اور پاک ہی قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنوں کو اسی چیز کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا ہے۔ فرمایا : اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو کچھ تم کرتے ہو یقیناً میں اسے جاننے والا ہوں۔ اور فرمایا : اے مومنو! ہم نے جو تمہیں رزق دیا اس میں سے پاک کھاؤ۔“ (ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَاءِ یَارَبِّ یَا رَبِّ وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالْحَرَامِ فَأَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذَلِکَ) [رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا] پھر آپ {ﷺ}نے ایک آدمی کا تذکرہ کیا جو لمبا سفر کرتا ہے‘ اس کے بال پراگندہ اور پاؤں خاک آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف اپنے ہاتھ پھیلائے یارب! یارب! کی صدائیں بلند کرتا ہے اس کی حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور وہ حرام سے پرورش پایا ہے ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول کی جائے گی؟“ مسائل : 1۔ ہر شخص کو حلال اور پاک کھانا چاہیے۔ 2۔ حرام کھانا شیطان کی پیروی کرنا ہے۔ 3۔ شیطان انسان کا واضح دشمن ہے، اس کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن : اکل حلال کی اہمیت : 1۔ ایمان داروں کو حلال کھانے کا حکم ہے۔ (البقرۃ :172) 2۔ رسولوں کو اکل حلال کی تلقین۔ (المومنون :51) 3۔ تمام لوگوں کو اکل حلال کا حکم ہے۔ (البقرۃ :168)