وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ
اور ہم نے ان لوگوں سے (یعنی کفار مکہ سے ظہور نتائج کے) جو وعدے کیے ہیں (کچھ ضرور نہیں کہ بیک دفعہ سب ظہور میں آجائیں) ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض باتیں ہم تجھے تیری زندگی ہی میں دکھا دیں، ہوسکتا ہے کہ ان سے پہلے تیرا وقت پورا کردیں۔ بہرحال جو کچھ تیرے ذمہ ہے وہ یہی ہے کہ پیام حق پہنچا دینا۔ ان سے (ان کے کاموں کا) حسابلینا ہمارا کام ہے۔ تیرا کام نہیں۔
فہم القرآن : (آیت 40 سے 41) ربط کلام : کفار کے اعتراض کا دوسرا جواب : منکرین حق کا سینکڑوں دلائل سننے اور درجنوں معجزات دیکھنے کے باوجود اس بات پر مصر رہنا اور تکرار کرنا کہ رسول ہمیں مزید معجزات کیوں نہیں دکھاتا یا ہمارے مطالبہ پر ہم پر سخت ترین عذاب نازل کیوں نہیں ہوتا ؟ اس کا بھی قرآن مجید نے متعدد مقامات پر جامع اور تفصیلی جواب دیا ہے۔ جس کے ثبوت حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امتوں کے حوالے سے پیش کیے ہیں۔ مگر پھر بھی منکرین حق آپ سے اس قسم کے مطالبات کرتے ہی رہتے تھے۔ جن کا اس مقام پر فقط اتنا ہی جواب دیا ہے کہ اے رسول ! جس بات کا یہ مطالبہ کرتے ہیں اور ہم نے آپ سے وعدہ کیا ہے۔ اس کا کچھ حصہ آپ کی حیات مبارکہ میں یا آپ (ﷺ) کی وفات کے بعد انہیں ضرور دکھا اور چکھا دیا جائے گا۔ ان کی حماقتوں کی طرف توجہ دینے کی بجائے جو کچھ آپ پر نازل کیا جا رہا ہے ان تک پہنچاتے جائیں۔ آپ کے ذمہ ان کو حق بات پہنچانا ہے اور ہمارے ذمہ ان سے حساب لینا ہے۔ یہ عذاب کے بارے میں جلد بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے تمام اطراف سے گھٹاتے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہی فیصلہ کرنے والا ہے۔ جس کے فیصلے پر کوئی نظرثانی اور تعاقب کرنے والا نہیں۔ وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ زمین کے چاروں اطراف کی طرف تنگ ہونے کا اس زمانے کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ اہل مکہ اور دیگر مخالفین کی ہزار کوششوں کے باوجود اسلام کا پھریرہ دور دور تک پھیلتا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ صحابہ کرام (رض) کے دور میں ہی وہ وقت آیا کہ جب مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے اور مسلمان تقریباً آٹھ سو سال دنیا میں واحد سپر پاور کے طور پر حکومت کرتے رہے۔ اس طرح اللہ کا حکم اور اس کا فیصلہ دنیا میں پورا ہوا۔ جس کا قرآن مجید نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو پھونکوں سے بجھا دیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ یہ بات کفار کے لیے کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ خواہ یہ بات مشرکوں کے لیے کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ (التوبۃ: 32، 33) اللہ تعالیٰ نے یہ بات لکھ چھوڑی ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب آئیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑی قوت اور غلبہ والا ہے۔ (المجادلۃ :21) (عَنْ أَبِیْ سُکَیْنَۃَ رَجُلٌ مِّنَ الْمُحَرَّرِیْنَ عَنْ رَّجُلٍ مِّنْ أَصْحَاب النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَمَّا أَمَرَ النَّبِیُّ (ﷺ) بِحَفْرِ الْخَنْدَقِ عَرَضَتْ لَہُمْ صَخْرَۃٌ حَالَتْ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْحَفْرِ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَأَخَذَ الْمِعْوَلَ وَوَضَعَ رِدَآءَ ہٗ نَاحِیَۃَ الْخَنْدَقِ وَقَالَ ﴿تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلاً لاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ﴾ ......) [ رواہ النسائی : باب غزوۃ الترک والحبشۃ] حضرت ابو سکینہ نبی (ﷺ) کے ایک صحا بی سے بیان کرتے ہیں کہ جب آپ (ﷺ) نے خندق کھودنے کا حکم دیا تو خندق کھودتے ہوئے ایک چٹان درمیان میں حائل ہوگئی رسول اللہ (ﷺ) نے کدال پکڑا اور اپنی چادر کو خندق کے کنارے رکھا اور کہا ﴿تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلاً لاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ﴾ تو پتھر کا تہائی حصہ ٹوٹ گیا......... مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے عذاب لے آئے۔ 2۔ رسول کریم (ﷺ) کا کام تبلیغ کرناتھا۔ 3۔ حساب لینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء ( علیہ السلام) کا کام حق بات پہنچانا ہے : 1۔ آپ (ﷺ) کا کام حق پہنچانا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ (الرعد :40) 2۔ نہیں ہے رسولوں پر مگر حق بات پہنچانا۔ (النحل :35) 3۔ اگر وہ منہ موڑلیں تو آپ کی ذمہ داری پہنچانا ہے۔ (آل عمران :20) 4۔ نہیں ہے رسول پر مگر واضح طور پر پیغام پہنچانا۔ (النور :54) 5۔ آپ نصیحت کرتے رہیں آپ کا کام نصیحت کرنا۔ (الغاشیہ :21) 6۔ اگر تم اعراض کرو تو جان لو ہمارے رسولوں پر فقط پہنچا نا ہے۔ (المائدۃ:92) 7۔ رسولوں نے کہا ہمارا کام تو تبلیغ کرنا ہے۔ (یٰس :17)