سورة الرعد - آیت 22

وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے محبت کرتے ہوئے (ہر طرح کی ناگواریوں اور سختیوں میں) صبر کیا، نماز قائم کی، جو کچھ روزی انہیں دے رکھی ہے اس میں سے خرچ کرتے رہے، پوشیدگی میں بھی اور کھلے طور پر بھی۔ انہوں نے برائی کے مقابلہ میں برائی نہیں کی، جب پیش آئے اچھائی ہی سے پیش آئے، تو (بلاشبہ) یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے عابقت کا گھر ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : مومنوں کے مزید چار اوصاف۔ مومن وہ ہیں جو مشکلات اور پریشانیوں کے وقت اپنے رب کی رضا کی خاطر صبر کرتے ہیں اس کے حضور پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ جو کچھ ان کے رب نے انہیں عطا فرمایا ہے، اس میں سے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی بجائے اچھائی اور خیر خواہی سے دیتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا گھرتیار کیا گیا ہے۔ ان اوصاف حمیدہ کی فرضیت اور فضلیت کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔ صبر : صبر کا معنی ہے مشکل اور پریشانی کے وقت حوصلہ قائم رکھنا اور شریعت کی حدود وقیود کا مستقل مزاجی کے ساتھ اتباع کرنا۔ اس سے پہلے مومنوں کی یہ صفات ذکر ہوئی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد یعنی عقیدۂ توحید پر پکے رہتے ہیں اور آپس کی رشتے داریوں کو جوڑے رکھتے ہیں۔ یہ دونوں کام ایسے ہیں جو مشکلات کا سامنا کیے بغیر کما حقہ پورے نہیں ہو سکتے۔ صبر کس وقت کرنا چاہیے : (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ () بِاِمْرَاَۃٍ تَبْکِیْ عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ اتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ قَالَتْ اِلَیْکَ عَنِّی فَاِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِیْبَتِیْ وَلَمْ تَعْرِفْہٗ فَقِیْلَ لَھَا اِنَّہُ النَّبِیُّ () فَاَتَتْ بَاب النَّبِیِّ () فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَہُ بَوَّابِیْنَ فَقَالَتْ لَمْ اَعْرِفْکَ فَقَالَ اِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَالصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی) [ رواہ البخاری : کتاب الجنا ئز، باب زیارۃ القبور] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کا گزر ایک عورت کے پاس ہوا جو ایک قبر پر آہ و بکا کر رہی تھی۔ آپ نے اسے تلقین فرمائی‘ اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ وہ کہنے لگی یہاں سے چلے جاؤ۔ تمہیں ایسی مصیبت نہیں پہنچی جس مصیبت میں میں مبتلا ہوں۔ وہ آپ کو پہچانتی نہیں تھی۔ جب اسے بتایا گیا کہ یہ نبی کریم (ﷺ) ہیں۔ وہ آپ کے دروازے پر آئی جس پر کوئی چوکیدار نہ تھا وہ معذرت خواہانہ عرض کرنے لگی میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا‘ صبر تو وہ ہے جو صدمہ پہنچنے کے وقت کیا جائے۔“ مسائل: 1۔ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صبر اختیار کرنا چاہیے۔ 2۔ نماز قائم کرنا فرض ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اعلانیہ اور خفیہ طور پر خرچ کرنا چاہیے۔ 4۔ برائی کو نیکی سے ٹالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 5۔ نیک لوگوں کا اچھا انجام ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : ایمانداروں کے مختصر اوصاف : 1۔ وہ لوگ جو اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتے، نماز قائم کرتے اور اللہ کی راہ میں اعلانیہ اور خفیہ طور پر خرچ کرتے ہیں۔ اور بدسلو کی کو حسن سلوک سے ٹالتے ہیں ان کا انجام بہتر ہے۔ (الرعد :22) 2۔ ایمانداروں کے دل اللہ کے ذکر سے سہم جاتے ہیں جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے ایمان والے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (الانفال :2) 3۔ ایماندار نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ کے عطا کیے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں۔ (الانفال :3) 4۔ مومن اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ (الحجرات :15) 5۔ مومن ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے، زکوٰۃ ادا کرتے مومن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (التوبۃ :71) 6۔ اللہ اور اس کے رسول اور مومن آپس میں دوست ہیں۔ (المائدۃ:55) 7۔ ایمان والے نماز میں خشوع وخضوع اختیار کرتے ہیں۔ (المومنون : 1۔2) 8۔ ایماندار دنیا کے لاؤ لشکر کو خاطر میں نہیں لاتے۔ (الاحزاب :22)