وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ
اور (دیکھو) انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے بھی ہیں جو خدا کے سوا دوسری ہستیوں کو اس کا ہم پلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ انہیں اس طرح چاہنے لگتے ہیں جیسی چاہت اللہ کے لیے ہوقنی چاہیے۔ حالانکہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ان کے دلوں میں تو سب سے زیادہ محبت اللہ ہی کی ہوتی۔ جو بات ان ظالموں کو اس وقت سوجھے گی جب عذاب ان کے سامنے آجائے گا کاش ! اس وقت سوجھتی۔ اس دین یہ دیکھیں گے کہ قوت اور ہر طرح کی قوت صرف اللہ ہی کو ہے، اور (اگر اس کے قوانین حق سے سرتابی کی جائے تو) اس کا عذاب بڑا ہی سخت عذاب ہے
فہم القرآن : ربط کلام : زمین و آسمانوں کا خالق اور انسانوں کو آفاقی اسباب کے ذریعے روزی اور فوائد پہنچانے والا اللہ ہے تو پھر محبت اسی سے ہونی چاہیے نہ کہ دوسرے سے۔ سابقہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کے آٹھ ایسے آفاقی دلائل دیئے ہیں۔ جن سے ایک دیہاتی، شہری، جاہل اور تعلیم یافتہ، موٹی عقل والا آدمی یا انتہائی دانشور، سیاست دان یا سائنس دان سب کے سب اپنی اپنی لیاقت اور صلاحیت کے مطابق ان سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ایسے ہمہ گیر اور ٹھوس دلائل ہیں جن سے ہر آدمی کا واسطہ پڑتا ہے اور وہ ان سے استفادہ کرتا ہے۔ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ آفاق کے تمام عناصر ایک ہی ہستی کے پیدا کردہ اور اسی کے تابع فرمان ہیں۔ جب ان تمام آفاقی عناصر کی پیدائش اور انہیں مسخر اور مقید رکھنے میں زندہ اور مردہ باطل خداؤں، نیک و بد، حکمرانوں اور سائنس دانوں کا عمل دخل نہیں بلکہ پورے کا پورا نظام ایک ہی ہستی کے زیر اقتدار ہے تو پھر اسی مالک کو الٰہ مانو اور اسی سے محبت کا رشتہ جوڑو جو پورے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے۔ لیکن مشرک حقیقی عقل سے عاری ہوتا ہے۔ چاہے وہ کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو۔ وہ کائنات کے خالق ومالک سے محبت وتعلق قائم کرنے کے بجائے اپنے رب سے بڑھ کر دوسروں سے محبت اور تعلق قائم کرتا ہے‘ حالانکہ حقیقی اور دائمی محبت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہیے۔ باقی تمام محبتیں اس کی محبت کے تابع ہوناضروری ہیں۔ لیکن مشرک ایسی محبت کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی محبت کے مقابلے میں دوسروں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے برعکس موحّد کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے اس طرح لبریز ہوتا ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں دنیا کی کسی چیز کی محبت کو ترجیح نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اولاد اور جان سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی محبت کو عزیز سمجھتا ہے اور اس کی ہر سوچ اور کام کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا حکم ہی مقدم ہوتا ہے۔ رسول محترم {ﷺ}اسی بات کی راہنمائی اور دعا کیا کرتے تھے۔ محبت وہ فطری جذبہ ہے جو ہر انسان اور حیوان میں پایا جاتا ہے۔ محبت کرنے کے کچھ اسباب اور وجوہات ہوا کرتی ہیں جن کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ محبت کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم اپنے رب سے سب سے زیادہ محبت کرنے کی کوشش کرو۔ اگر تم کسی کے احسان کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ تمہارا محسن ہے۔ تم کسی سے قرابت داری کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو وہ سب سے بڑھ کر تمہارے قریب ہے، اگر تم جمال وکمال کی وجہ سے کسی سے محبت کرتے ہو تو کائنات کا سار اجمال وکمال اسی کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اجمل واکمل ہے۔ اگر تم کسی کے اقتدار اور اختیار کی بنا پر اس سے الفت کرتے ہو تو اس سے بڑھ کر کسی کے پاس اختیار اور اقتدار نہیں ہے۔ غرضیکہ کسی سے صحیح محبت کرنے کے جو بھی محرکات اور اسباب ہو سکتے ہیں ان سب کا مالک تمہارا اللہ ہے‘ پھر اسی کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کیوں نہ کی جائے؟ اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اس کے رسول محمد مصطفی‘ احمد مجتبیٰ {ﷺ}کے ساتھ بھی محبت ساری مخلوق سے بڑھ کر ہونی چاہیے تب جا کر آدمی کا ایمان مکمل ہوتا ہے۔ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب حب الرسول من الإیمان] ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے اپنے والدین‘ اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔“ مسائل : 1۔ مشرک باطل معبودوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ جیسی محبت کرتے ہیں۔ 2۔ صاحب ایمان لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت میں متشدّد ہوتے ہیں۔ 3۔ قیامت کے دن مشرک عذاب دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قوت و سطوت کا اعتراف کریں گے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود ماننا اور اس کی عبادت کرناحرام ہے : 1۔ حضرت عیسیٰ اور مریم (علیہ السلام) کو عیسائیوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا۔ (النساء :171) 4۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بتوں کو معبود بنایا۔ (نوح :23) 2۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا ٹھہرایا۔ (التوبہ :30) 5۔ مکے کے مشرک بتوں کی تعظیم اور عبادت کرتے تھے۔ (الانعام :136) 3۔ یہودیوں نے بچھڑے کو معبود بنایا۔ (الاعراف :152) 6۔ مشرک غیر اللہ کو خدا کے قرب کا ذریعہ بناتے ہیں۔ (الزمر :2)