سورة یوسف - آیت 99

فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جب (ایسا ہوا کہ یوسف کی خواہش کے مطابق) یہ لوگ (کنعان سے روانہ ہوگئے اور شہر کے باہر) یوسف سے ملے تو اس نے اپنے باپ اور ماں کو (عزت و احترام سے) اپنے پاس جگہ دی اور کہا اب شہر میں چلو، خدا نے چاہا تو تمہارے لیے ہر طرح کی سلامتی ہے۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 99 سے 100) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ یوسف (علیہ السلام) کی درخواست پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا بمعہ اہل وعیال ملک مصر کی طرف روانہ ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) منزل بہ منزل سفر کرتے ہوئے اپنے اہل وعیال کے ساتھ مصر شہر کے قریب پہنچے۔ یاد رہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے بھی اس ملک کا نام مصر تھا۔ اس کے سب سے بڑے شہر کا نام بھی مصر ہے جو اس ملک کا قدیم سے دارالخلافہ ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) دن رات اس انتظار میں تھے کہ والد گرامی کس دن تشریف لاتے ہیں۔ جونہی انہیں معلوم ہوا کہ والد گرامی کا قافلہ مصر شہر کی حدود میں داخل ہونے والا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) اپنے عملہ سمیت استقبال کے لیے پہلے سے وہاں موجود تھے۔ والد گرامی سے بغل گیر ہوتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس کی منظر کشی کرنے کے بجائے اسے فطری تصور کے حوالے کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی مدت کے بعد باپ بیٹے کی ملاقات زندگی کے ایسے موڑ پر ہو رہی ہے کہ بیٹا نہ صرف دنیا کی عظیم مملکت کا فرمانروا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے تاج نبوت سے بھی نواز رکھا ہے۔ ایسے موقعہ پر جذباتی کیفیت سے وہی واقف ہو سکتے ہیں جن کو کسی نہ کسی انداز میں اولاد کی جدائی کا صدمہ پہنچا ہو۔ مصافحہ، معانقہ اور محبت و عقیدت کا اظہار کرنے کے بعد یوسف (علیہ السلام) اپنے والد گرامی سے عرض کرتے ہیں میرے عظیم باپ آئیں شہر میں قدم رنجہ فرمائیں۔ آپ انشاء اللہ ہر جانب سے امن وامان، عزت واقبال، سکون اور اطمینان پائیں گے۔ گویا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خداداد صلاحیتوں سے مصر کو امن وامان اور خوشحالی کا گہوارا بنا دیا تھا۔ شاندار استقبال کے ساتھ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ مکرمہ جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی حقیقی والدہ ہیں مصر کے پایۂ تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ برادران یوسف (علیہ السلام) سامنے براجمان ہوتے ہیں۔ جو نہی حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے مسند اقتدار پر تشریف رکھتے ہیں تو ان کے والدین اور بھائی ان کے حضور سجدہ کرتے ہیں۔ جب سب نے یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے باپ سے عرض کرنے لگے۔ اے میرے عظیم باپ! بچپن میں جو میں نے خواب دیکھا تھا یہ اس کی تعبیر ہے میرے رب نے اسے حرف بہ حرف حقیقت بنا دیا ہے اور مجھ پر احسان کرکے مجھے جیل سے نکال کر اس منصب تک پہنچایا ہے۔ اسی رب نے آپ کو صحرا سے لاکر مجھ سے ملایا ہے۔ حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان دوری پیدا کرچکا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب نہایت ہی لطیف انداز میں اپنی مشیت پوری کرنے والا ہے۔ کیونکہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے مقدس الفاظ سے معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اب تک اپنے والد کے بغیر خواب کسی کے سامنے بیان نہیں کیا تھا۔ تبھی تو فرما رہے ہیں کہ والد محترم یہ اسی خواب کی تعبیر ہے جو میں نے بچپن میں آپ کے سامنے بیان کیا تھا۔ پھر اپنے جیل جانے کا واقعہ بیان کیا۔ لیکن بھائیوں کے کنویں میں پھینکنے کے واقعہ کو بیان کرنے کی بجائے صرف اشارہ کیا ہے شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان نزاع ڈال چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کی سازش کو ناکام فرما کر ہمیں ملایا اور ہمارے دلوں میں محبت پیدا فرما دی ہے۔ سجدہ سے مراد جھکنا بھی ہوسکتا ہے لیکن قرآن مجید نے سجدہ کے ساتھ ﴿خَرُّوْا کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ جس کا صاف معنی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والدین اور بھائیوں نے ان کے حضور سجدہ کیا تھا۔ یہ سجدۂ تعظیم تھا جو پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔ اسی شاہی پروٹوکول کا خیال رکھتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والدین ان کی تعظیم کے لیے سجدہ کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر یوسف (علیہ السلام) کے بھائی بھی سجدہ ریز ہوگئے۔ یاد رہے کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ ہمارے دین میں بالکل حرام اور ناجائز ہے۔ تعظیمی سجدہ پیر محمد کرم شاہ صاحب الأزھری کی نظر میں : ” جب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی وسعت علم اور اپنے عجز کا اعتراف کرلیا تو پروردگار عالم نے انہیں حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سجدہ کا لغوی معنی ہے تذلّل اور خضوع اور شریعت میں اس کا معنٰی ہے ” وضع الجبھۃ علی الأرض“ پیشانی کا زمین پر رکھنا۔ بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ کا لغوی معنٰی مراد ہے کہ فرشتوں کو ادب واحترام کرنے کا حکم دیا گیا لیکن جمہور علماء کے نزدیک شرعی معنیٰ مراد ہے۔ یعنی فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیشانی رکھ دیں۔ اب اس سجدہ کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ پیشانی جھکانے والا یہ اعتقاد کرے کہ جس کے سامنے میں پیشانی جھکا رہا ہوں وہ خدا ہے تو یہ عبادت ہے اور یہ بھی کسی نبی کی شریعت میں جائز نہیں بلکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد اولین تھاہی یہی کہ وہ انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور دوسروں کی عبادت سے منع کریں تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس چیز سے روکنے کے لیے انبیاء تشریف لائے اس فعل کا ارتکاب خود کریں یا کسی کو اجازت دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جس کے سامنے سجدہ کیا جارہا ہے اس کی عزت واحترام کے لیے ہو عبادت کے لیے نہ ہو تو اس کو سجدہ تحیہ کہتے ہیں۔ یہ پہلے انبیاء کرام کی شریعتوں میں جائز تھا لیکن حضور کریم (ﷺ) نے اس سے بھی منع فرمادیا۔ اب تعظیمی سجدہ بھی ہماری شریعت میں حرام ہے۔“ [ ضیاء القرآن، جلد اول‘ البقرہ :34] مسائل: 1۔ والدین کی عزت و تو قیر کرنی چاہیے۔ 2۔ ہر کام کرتے وقت انشاء اللہ کہنا چاہیے۔ 3۔ انبیاء (علیہ السلام) کے خواب سچے ہیں۔ 4۔ شیطان کا کام فساد ڈالنا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ علم وحکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے : 1۔ بے شک میرا اللہ جو چاہتا ہے تدبیر کرتا ہے۔ (یوسف :100) 2۔ اللہ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے۔ (آل عمران :13) 3۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا مگر وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ (الدھر :30) 4۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا مگر وہی ہوتا ہے جو جہانوں کا رب چاہتا ہے۔ (التکویر :29) 5۔ اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (آل عمران :37)