فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ
پھر جب (باپ کے حکم کی تعمیل میں یہ لوگ مصر پہنچے اور) یوسف کے پاس گئے تو (اپنے پھر آنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہا اے عزیز ہم پر اور ہمارے گھر کے آدمیوں پر بڑی سختی کے دن گزر رہے ہیں، پس (مجبور ہو کر غلہ کی طلب میں ہمیں پھر نکلنا پڑا) ہم تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں، اسے قبول کرلیجیے، اور غلہ کی پوری تول عنایت کیجیے اور (اسے خریدوفروخت کا معاملہ نہ سمجھیے بلکہ) ہمیں (محتاج سمجھ کر) خیرات دے دیجیے، اللہ خیرات کرنے والوں کو ان کا اجر دیتا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب کی ہدایت پر برادران یوسف کا مصر کی طرف جانا۔ برادران یوسف اب تیسری مرتبہ مصر پہنچ کر مصر کے بادشاہ ( یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات کرتے ہیں۔ اب کی بار فاقہ مستی کی وجہ سے ان کی حالت یہ ہوچکی تھی کہ بادشاہ کے حضور پیش ہوتے ہی فریاد کرنے لگے۔ اے عزیزمصر! ہم اور ہمارے گھر والے قحط سالی اور فاقہ کشی کی و جہ سے انتہائی پریشان ہیں۔ غلہ لینے کے لیے جو رقم ہم لائے ہیں وہ بالکل ہی معمولی ہے لیکن آپ سے التجا ہے کہ آپ قیمت کے برابر غلہ دینے کی بجائے ہم پر صدقہ کریں۔ اللہ تعالیٰ صدقہ دینے والوں کو یقیناً جزا دیتا ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے پتا چل رہا ہے کہ بردران یوسف نے کتنی بے بسی اور عاجزی میں آکر فریاد کی تھی۔ غیور اور پیغمبر زادے ہونے کے باوجود فریاد کرتے ہیں کہ ہم بڑی مشکل سے کچھ رقم لائے ہیں۔ مگر یہ اتنی تھوڑی ہے کہ اس کے عوض جو غلہ ملے گا۔ اس سے ہم اپنے بوڑھے ماں باپ اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے اس لیے ہماری عاجزانہ در خواست ہے کہ آپ اپنی طرف سے مزید غلہ عنایت فرمائیں۔ ہم اس قدر مجبور ہوچکے ہیں کہ ہم آپ سے صدقہ کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ آپ ضرور ہمیں صدقے کے طور پر غلہ دیں کیونکہ اللہ تعالیٰ صدقہ دینے والوں کو جزا دیتا ہے۔ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ برادران یوسف کی حالت زار کی ترجمانی کر رہا ہے کہ انہوں کتنی عاجزی اور لجاجت کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے فریاد پر فریاد کی تھی۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ایھا العزیز کہہ کر درخواست کرتے ہیں ” العزیز“ کا لفظ پچھلی آیات میں اس عورت کے خاوند کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پھسلانے اور ورغلانے کی کوشش کی تھی۔ جس کے بارے میں مفسرین اور مؤرخین کا مکمل اتفاق ہے کہ وہ مصر کی حکومت میں اعلیٰ افسریا کوئی وزیر تھا۔ جہاں تک بادشاہ کے نام کا تعلق ہے اس کو قرآن کریم نے اسی سورۃ کی آیت 43تا 50میں ” الملک“ کے نام سے متعارف کروایا ہے۔ لہٰذا تفہیم القرآن کے مؤلف سید ابواعلیٰ مودودی کے مطابق ” العزیز“ سے مرادمصر میں کسی خاص منصب کا نام نہ تھا بلکہ محض ” صاحب اقتدار“ کے معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے۔ غالباً مصر میں بڑے لوگوں کے لیے اس طرح کا کوئی لفظ اصطلاحاً رائج تھا جیسے ہمارے ملک میں لفظ سرکار بولا جاتا ہے۔