يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ
(پھر انہوں نے کہا) اے میرے بیٹو ! (ایک بار پھر مصر) جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو منکر ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو لگ بھگ ٤٠ سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا۔ ان کی جدائی میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہر وقت خاموش اور غمگین رہتے تھے۔ اس غم نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو ان کی عمر سے پہلے ہی بوڑھا کردیا تھا۔ طویل مدت گزرنے کے باوجود ان کا غم پہلے دن کی طرح تازہ تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو صدمے پر صدمہ پہنچتا ہے۔ پہلے یوسف (علیہ السلام) آنکھوں سے اوجھل ہوئے پھر بنیامین اور یہودہ بھی مصر میں رہ گئے۔ اس کے باوجود حضرت یعقوب (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے۔ جب بیٹوں نے انہیں یہ بات کہی کہ آپ یوسف کو یاد کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ آپ ہلاک ہوجائیں۔ اس پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا میرے بیٹو! مایوس ہونے کی ضرورت نہیں تم جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اس کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو خواب کی تعبیر پر یقین تھا کہ ایک وقت ضرور آئے گا کہ یوسف اور اس کے بھائی سے ملاقات ہوگی۔ کیونکہ وہ پہلے بھی فرما چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ ضرور سب کو جمع کرے گا۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا کفر ہے : 1۔ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ (یوسف :87) 2۔ اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر :53) 3۔ اللہ کی رحمت سے گمراہوں کے سوا کوئی ناامید نہیں ہوتا۔ (الحجر :56) 4۔ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کرنے والے اللہ کی رحمت سے مایوس ہیں۔ (العنکبوت :23) 5۔ مومن اللہ کی رحمت کے امیدوار ہوتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ:218) 6۔ ابراہیم نے کہا میں اپنے پروردگار کو پکاروں گا امید ہے کہ میں اس کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا۔ (مریم :48)