سورة یوسف - آیت 69

وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَخَاهُ ۖ قَالَ إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ایسا ہوا کہ یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے بھائی (بنیامین) کو اپنے بٹھا لیا اور اسے (پوشیدگی میں) اشارہ کردیا کہ میں تیرا بھائی (یوسف) ہوں پس جو (بدسلوکی یہ تیرے ساتھ) کرتے آئے ہیں اس پر غمگین نہ ہو (اور خوش ہوجا کہ اب زمانہ پلٹ گیا)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 69 سے 72) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ برادران یوسف کا مختلف دروازوں کے ذریعے گزر کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ہاں جمع ہونا۔ مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ان کے ہاں جمع ہوئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ایک ایک کمرے میں دو دو بھائیوں کو ٹھہرایا اور بنیامین کو الگ کمرہ میں جگہ دی۔ پھر بنیامین کے پاس تشریف لے جا کر انھیں اپنا تعارف کروایا۔ ظاہر ہے اتنی مدت کے بعد ملنے پر دو بھائیوں کے جو جذبات ہوں گے انکاپوری طرح اندازہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں بتایا ہوگا اور حضرت بنیامین نے اپنے غم، گھریلو حالات اور اپنے والد گرامی کی پریشانیوں کا ذکر کیا ہوگا۔ جس پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ پیارے بھائی اب آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے اکٹھا کردیا ہے۔ لہٰذا جو کچھ آپ کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہیں ہیں ان پر دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں، ساتھ انہیں فرمایا کہ میں آپ کو اپنے پاس رکھنے کی کوئی راہ نکالتا ہوں۔ چنانچہ صبح کے وقت بھائیوں کا سامان تیار کیا۔ تو چپکے سے پانی پینے والا مخصوص پیالہ بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا۔ جب قافلہ غلہ لے کر شہر سے باہر نکل گیا تو حسب منصوبہ پیچھے سے انتظامیہ کے آدمی بھیجے کہ جانے والے قافلہ کی تلاشی لی جائے۔ انتظامیہ کے لوگوں نے قافلہ کا پیچھا کرتے ہوئے آواز دی کہ رک جاؤ تم تو چور معلوم ہوتے ہو۔ قافلے والے پیچھے پلٹ کر پوچھتے ہیں۔ جناب آپ کی کیا چیز گم ہوئی ہے ؟ جس وجہ سے آپ ہمیں چور کہہ رہے ہیں۔ انتظامیہ کے سربراہ نے کہا کہ ہمارے بادشاہ کا پانی پینے والا پیالہ گم ہوگیا ہے۔ جو شخص ڈھونڈ لائے گا اسے ایک اونٹ غلہ دیا جائے گا۔ میں اس کی ضمانت دیتا ہوں صواع سے مراد ہے پانی پینے کا پیالہ جو سونے یا چاندی کا ہو۔ یا درہے ہماری شریعت میں سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا حرام ہیں، شریعت یوسفی میں حرام نہ تھے۔ (عن عَبْد اللّٰہِ بْنَ عُکَیْمٍ قَالَ کُنَّا مَعَ حُذَیْفَۃَ (رض) بِالْمَدَآئِنِ فَاسْتَسْقٰی حُذَیْفَۃُ فَجَآ ءَ ہٗ دِہْقَانٌ بِشَرَابٍ فِیْٓ إِنَاءٍ مِّنْ فِضَّۃٍ فَرَمَاہُ بِہٖ وَقَالَ إِنِّیْٓ أُخْبِرُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَمَرْتُہٗ أَنْ لاَّ یَسْقِیَنِیْ فِیْہِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ لاَ تَشْرَبُوْا فِیْٓ إِنَآء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَلاَ تَلْبَسُوا الدِّیْبَاجَ وَالْحَرِیْرَ فَإِنَّہٗ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا وَہُوَ لَکُمْ فِی الآخِرَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ رواہ مسلم : کتاب اللباس والزینۃ، باب تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ عَلَی الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ ] ” حضرت عبداللہ بن عکیم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے ساتھ مدائن میں تھے۔ حذیفہ (رض) نے پانی طلب کیا تو ایک کاشتکار چاندی کے برتن میں پانی لے کر حاضر ہوا توا نہوں نے اسے پھینک دیا اور فرمانے لگے کہ میں تمہیں آگاہ کرتے ہوئے حکم دیتاہوں کہ کوئی مجھے ایسے برتن میں مجھے نہ پلائے۔ کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو۔ زیور اور ریشمی لباس نہ پہنو (مرد) یقیناً یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہے اور تمہارے لیے آخرت میں ہے۔“ مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی۔ 2۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے پینے کا برتن بھائی کی بوری میں رکھوا دیا۔ 3۔ پختہ شک کی بنیاد پر چوری کا الزام لگایا جاسکتا ہے۔ ٤۔ گمشدہ چیز کے لیے انعام مقرر کیا جا سکتا ہے۔