سورة یوسف - آیت 68

وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(پھر) جب یہ لوگ (مصر مین) داخل ہوئے، اسی طرح جس طرح باپ نے حکم دیا تھا تو (دیکھو) یہ بات اللہ (کی مشیت) کے مقابلہ میں کچھ بھی کام آنے والی نہ تھی مگر ہاں یعقوب کے دل میں ایک خیال پیدا ہوا تھا جسے اس نے پورا کردیا، بلاشبہ وہ صاحب علم تھا کہ ہم نے اس پر علم کی راہ کھول دی تھی، لیکن اکثر آدمی (اس بات کی حقیقت) نہیں جانتے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے ان کے بیٹوں کا مختلف دروازوں سے شہر میں داخل ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صاحبزادے اپنے والد کی تجویز کے مطابق شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہوئے۔ یہ تو ان کی احتیاطی تدبیر تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی تعلیم کی بدولت حضرت یعقوب (علیہ السلام) بڑے صاحب علم تھے۔ جبکہ اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔ پہلے واقعہ کے پیش نظر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بیٹوں کو رخصت کرتے ہوئے ان سے حلف لیا تاکہ انھیں پہلی غلطی کا احساس اور آئندہ کے لیے فکر مندی ہو کہ ہم نے پہلے جیسا جرم نہیں کرنا۔ اس کے ساتھ ہی احتیاط کے طور پر ایک تدبیربتلائی۔ اس تدبیر کے باوجود کئی دفعہ فرمایا کہ بیٹواپنے رب پر پوری طرح توکل رکھنا اور میرا بھی اس کی ذات پر توکل ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی احتیاطی تدبیر اور اللہ پر توکل کرنے کی سوچ و فکر اور علم کے بارے میں ارشادہوا ہے کہ یہ ہم نے ہی یعقوب (علیہ السلام) کو علم اور سوچ عطا کی تھی۔ جسے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت دنیا کے اسباب اور اپنے علم و ہنر پر ہی بھروسہ کرتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اسباب و وسائل کو اختیار کیے بغیر اللہ پر توکل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ توکل کا حقیقی معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اس پر بھروسہ کیا جائے۔ تدبیر کی اہمیت : (عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَجُلٌ یَّا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَعْقِلُہَا وَأَتَوَکَّلُ أَوْ أُطْلِقُہَا وَأَتَوَکَّلُ قَالَ اِعْقِلْہَا وَتَوَکَّلْ )[ رواہ الترمذی : باب اعقل وتوکل ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں سواری کو باندھوں اور توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر توکل کرو۔“ مسائل: 1۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے ان کے حکم کے مطابق شہر میں داخل ہوئے۔ 2۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) بڑے صاحب علم تھے۔ 3۔ لوگوں کی اکثریت حقائق سے آگاہ نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن : لوگوں کی اکثریت کا حال : 1۔ اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 2۔ لوگوں کی اکثریت شکر نہیں کرتی۔ (یوسف :38) 3۔ آپ کے چاہنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ (یوسف :103) 4۔ یہ آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (ھود :17) 5۔ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ مومن ہیں اور ان کی اکثریت نافرمان ہے۔ (آل عمران :110) 6۔ وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے اور ان کی اکثریت بے عقل ہے۔ (المائدۃ:103) 7۔ اللہ کی منشا کے بغیر کوئی ایمان نہیں لاتا لیکن لوگوں کی اکثریت جاہل ہے۔ (الانعام :111) 8۔ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق کو نہیں مانتے۔ (النحل :83)