سورة البقرة - آیت 159

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جن لوگوں کا یہ شیوہ ہے کہ (دنیا کے خوف یا طمع سے) ان باتوں کو چھاپتے ہیں جو سچائی کی روشنیوں اور رہنمائیوں میں سے ہم نے نازل کی ہیں باوجودیکہ ہم نے انہیں کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے تو یقین کرو ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے (یعنی اس کی رحمت سے محروم ہوجاتے ہیں) تمام لعنت کرنے والوں کی لعنتیں بھی ان کے حصے میں آتی ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 159 سے 160) ربط کلام : اہل کتاب نے رسول اکرم {ﷺ}کی رسالت کے اوصاف اور بیت اللہ کے قبلۂ حق ہونے کو لوگوں سے چھپا رکھا تھا‘ جس پر حق چھپانے کی سزا بیان کی جارہی ہے۔ اہل کتاب نے رسول اللہ {ﷺ}کی رسالت کا ہی انکار نہیں کیا بلکہ ہر اس نشانی کو چھپانے اور مٹانے کی کوشش کی جس سے آپ کی رسالت کی نشاندہی ہوتی تھی۔ ان میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ نے بے قراری کے عالم میں صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگائے تھے لیکن یہود و نصارٰی نے تاریخ کے اس اہم ترین حصّہ کو اپنی کتابوں سے نکال باہر کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان مقامات کو شعائر اللہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حقائق اور احکامات کو چھپانا اتنا سنگین جرم ہے کہ اس جرم کی وجہ سے لا تعداد بلکہ بعض دفعہ تو نسل در نسل لوگ قبول حق سے محروم ہوجاتے ہیں لہٰذا ایسامجرم عالم ہو یا غیر عالم اس پر اللہ تعالیٰ اور کائنات کے ایک ایک ذرّہ کی لعنت ہوتی ہے۔ یہاں قرآن مجید نے لعنت کرنے والے افراد کو متعین نہیں فرمایا کہ یہ لعنت کرنے والے کون ہیں اس وجہ سے حضرت عبداللہ بن عباس {رض}کے شاگرد رشید اور مشہور مفسرِقرآن حضرت مجاہد اور عکرمہ {رض}فرمایا کرتے تھے کہ عدم تعین میں یہ واضح اشارہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز کتمانِ حق کرنے والوں پر پھٹکار کرتی ہے۔ یہاں حق چھپانے سے مراد صرف قرآن مجید کے ارشادات ہی نہیں بلکہ جو لوگ اپنے مذموم مقاصد کے لیے صحیح اسناد کے ساتھ امت تک پہنچنے والی احادیث کو جھٹلاتے یا چھپاتے ہیں ان پر بھی اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہوگی کیونکہ صحابہ کرام {رض}رسول کریم {ﷺ}کے ارشادات چھپانے کو بھی اس جرم میں شمار کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت معاذ {رض}نے یہی بات کہہ کر ایک حدیث اس وقت بیان فرمائی جب وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کررہے تھے۔ (حَدَّثَنَا اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمُعَاذُ ٗ رَدِیْفَہٗ............قَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلاَ اُخْبِرُبِہِ النَّاسَ فَیَسْتَبْشِرُوْا قَال اذاً یَّتَّکِلُوْا وَاَخْبَرَبِہَا مُعَاذُ ٗ عِنْدَ مَوْتِہٖ تَأَثُّمًا) [رواہ البخاری : کتاب العلم، باب من خص بالعلم قوما الخ] حدیث معاذ {رض}سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دینی مصلحت کی خاطر کسی بات کو کچھ عرصہ کے لیے بیان نہ کیا جائے تو اس میں کوئی جرم نہیں البتہ ایسے موقع پر حق بات چھپانا جس سے حق والوں کی ہزیمت ہو اور غلط بات حق کا درجہ اختیار کر جائے یا حق کے ہمیشہ دب جانے کا اندیشہ ہو تو حق چھپانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اس گناہ سے بچنے اور اعلان حق کے لیے صحابہ کرام‘ ائمہ عظام اور علمائے حق نے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں۔ لیکن جو آدمی دنیوی مفاد کی خاطر حق چھپاتا ہے اس شخص پر اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق پھٹکار کرتی ہے۔ البتہ ان لوگوں کو معاف کردیا جائے گا جنہوں نے اخفائے حق سے توبہ کی اور سابقہ اخفائے حق کی تلافی کے لیے حق بات کو کھول کر بیان کیا۔ یعنی جہاں جہاں اس جرم کے اثرات پہنچے ان کی تلافی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تاکہ حق واضح ہوجائے اور اس میں کوئی ابہام باقی رہنے نہ پائے۔ مسائل : 1۔ حق چھپانے والوں پر اللہ اور اس کی تمام مخلوق لعنت کرتی ہے۔ 2۔ توبہ کرنے والے کو اپنی سابقہ غلطیوں کے اثرات بھی ختم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ 3۔ توبہ کرنے اور حقائق بیان کرنے والوں کو معاف کردیا جائے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ تفسیربالقرآن : توبہ اور اس کی قبولیت کی شرائط : 1۔ اعتراف جرم کے باعث توبہ قبول ہوتی ہے۔ (البقرۃ :37) 2۔ ظلم سے اجتناب اور اصلاح احوال کے بعد توبہ قبول ہوتی ہے۔ (المائدۃ:39) 3۔ جہالت کے سبب گناہ ہوجائے تو اس کی اصلاح کرنے پر توبہ قبول ہوتی ہے۔ (الانعام :54) 4۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ:160) 5۔ اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے۔ (التوبۃ:27) 6۔ اللہ تعالیٰ مومن مردوں اور عورتوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (الاحزاب :73) 7۔ توبہ کرنے والوں کی برائیاں نیکیوں میں تبدیل کردی جاتی ہیں۔ (الفرقان :70)