إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ
بلاشبہ صفا اور مروی (نامی دو پہاڑیا) اللہ کی (حکمت و رحمت کی) نشانیوں میں سے ہیں پس جو شخص حج یا عمرہ کی نیت سے اس گھر کا (یعنی خانہ کعبہ کا) قصد کرے تو اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان طواف کے پھیرے کرلے۔ اور جو کوئی خوش دلی کے ساتھ نیکی کا کوئی کام کرتا ہے، تو اللہ ہر عمل کی اس کی منزلت کے مطابق قدر کرنے والا، اور سب کچھ جاننے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : پارے کی ابتدا سے تحویل قبلہ کا بیان ہورہا ہے۔ اس دوران زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر ثابت قدم رہنے والوں کو خوشخبری سنائی گئی۔ اب صفا ومروہ کی سعی کے حوالے سے گذشتہ مضمون سے پیوستہ کردیا گیا ہے۔ اسلام سے قبل اہل مکہ کے چار بڑے بت تھے جنّ میں سے ہبل کو بیت اللہ میں رکھا گیا اور مناۃ بحر احمر کے کنارے اور لات کو شہر طائف میں رکھا گیا۔ جب کہ عزی کو وادئ نخلہ میں نصب کیا گیا تھا۔ صفا اور مروہ کی دو مقدس پہاڑیوں پر اسا ف اور نائلہ کے بت رکھے گئے تھے۔ اہل مکہ چونکہ اساف اور نائلہ کو خدائی اوتار تسلیم نہیں کرتے تھے‘ جس کی وجہ سے مناۃ کے ماننے والے صفا اور مروہ کی سعی سے گریز کرتے تھے۔ دین اسلام کی آمد پر مسلمانوں کے دلوں میں یہ وہم پیدا ہوا کہ کہیں صفا اور مروہ کی سعی شرک کے زمرہ میں تو نہیں آتی؟ اس تصور کی نفی کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے مسلمانو! انشراح صدر کے ساتھ صفا اور مروہ کی سعی کیا کرو کیونکہ یہ دونوں شعائر اللہ میں شامل ہیں۔ ان کے درمیان کی جانے والی سعی کا شرکیہ اعمال کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو تمہاری والدۂ ماجدہ حضرت ہاجرہ کے توَکل عَلَی اللّٰہِ اور بے بسی کے عالم میں ان کے گھومنے کا مقام اور ترجمان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے شعائر اللہ میں سے شمار فرمایا ہے۔ ” شَعَائِرْ“ شعار کی جمع ہے جس کا معنی ہے کہ ایسی جگہ یا نشانی جس سے اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کی راہنمائی ہوتی ہو۔ اس لیے شعائر اللہ کی تعظیم کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات کا احترام کرنا اور اس کا تقو ٰی قرار پایا ہے۔ لہٰذا ان کی سعی میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ یا در کھیے! جو شخص بھی دل کی گہرائی کے ساتھ نیکی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کو جاننے اور اس کی قدر افزائی فرمانے والاہے۔ دنیا میں بڑے بڑے پہاڑ اپنی بلندی اور فلک بوسی کے اعتبار سے مشہور ہیں‘ ان میں مر مر اور یاقوت وعقیق بھی پائے جاتے ہیں‘ صفا اور مروہ بظاہر معمولی پہاڑیاں ہیں مگر احترام واکرام اور نیکی کے اعتبار سے اپنے دامن میں ایک تاریخی پس منظر اور شعائر اللہ کا تقدس لیے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ [ کو یہاں چھوڑ کر جانے لگے تو انہوں نے عرض کیا کہ میرے سرتاج مجھ سے کوئی گستاخی ہوئی ہے یا اللہ کا حکم اس طرح ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : کہ اللہ کا حکم سمجھ کر اسے تسلیم کیجیے۔ تب حضرت ہاجرہ (علیھا السلام) عرض کرتی ہیں کہ آپ مطمئن ہو کر تشریف لے جائیں : اِذًا لَا یُضَیِّعَنَا اللّٰہُ ” پھر ہمیں اللہ تعالیٰ ضائع نہیں ہونے دے گا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ ﴿وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ﴾] غور فرمائیں! میلوں پھیلے ہوئے فلک بوس پہاڑ، بے آب وگیاہ سنگلاخ زمین اور دوردور تک انسانی زندگی کے لیے ضروری اسباب ووسائل کا فقدان ہونے کے باوجود کائنات کی عظیم ترین خاتون نے ایک ایسا جملہ ادا فرمایا جو اپنے اندر زمین و آسمان کی وسعتیں اور پہاڑوں سے زیادہ وزن لیے ہوئے ہے۔ اسی عقیدہ کی یاد دہانی اور مشکل ترین حالات میں اللہ پر توکل کرنے اور آزمائش میں ثابت قدمی کا سبق یاد دلانے کے لیے صفا ومروہ کی سعی کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کو طواف سے تعبیر فرمایا ہے۔ لیکن حدیث رسول میں اس کے لیے سعی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تاکہ طواف سے لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ پید اہو جائے کہ صفا سے صفا تک ایک چکر بنتا ہے۔ بلکہ آپ نے صفا سے مروہ تک ایک جانب کو ایک چکر شمار کیا ہے اس طرح یہ سعی مروہ پر مکمل ہوتی ہے۔ آپ صفا پر چڑھ کر یہ کلمات ادا کیا کرتے تھے۔ ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَإِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ﴾ [ البقرۃ:158] ” بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں چنانچہ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر صفا مروہ کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور جو شخص خوشی سے نیکی کرے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔“ (لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ أَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب الحج] مسائل : 1۔ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نشانات ہیں۔ 2۔ صفا اور مروہ کا طواف نیکی سمجھ کر کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : شعائر اللہ کی تعریف : 1۔ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ (البقرۃ :158) 2۔ قربانی کا جانور اللہ کے شعائر میں سے ہے۔ (الحج :36) 3۔ اللہ کے شعائر کا احترام کرنے کا حکم ہے۔ (المائدۃ:2) 4۔ شعائر اللہ کی تعظیم کرنا تقو ٰی کی نشانی ہے۔ (الحج :32)