قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ
یوسف نے (یہ سن کر) اللہ کے حضور دعا کی خدایا ! مجھے قید میں رہنا اس بات سے کہیں زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ عورتیں بلا رہی ہیں، اگر تو نے (میری مدد نہ کی اور) ان کی مکاریوں کے دام سے نہ بچایا تو عجب نہیں میں ان کی طرف جھک پڑوں اور ان لوگوں میں سے ہوجاؤں جو ناشناس ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 33 سے 35) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بے بسی کے عالم میں مانگی ہوئی دعا قبول ہوئی ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) زر خرید غلام اور غریب الوطن ہونے کی وجہ سے ہر طرف سے بے بس اور مجبور تھے۔ اگر فرار کا راستہ اختیار کرتے تو ان کے سامنے جیل خانہ یا موت تھی۔ دوسری طرف ایک نہیں کئی عورتیں بے حیائی کے چنگل میں پھنسانا چاہتی تھیں۔ یوسف (علیہ السلام) جائیں تو جائیں کہاں۔ مزید یہ کہ اس عورت نے ذلیل کرنے یا جیل کی کال کوٹھڑی میں ڈالنے کی دھمکی دی تھی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر اس کا اظہار کیا کہ جس بے شرمی اور بے حیائی کی تو مجھے دعوت دیتی ہے اور اس کے نہ کرنے پر مجھے جیل جانے کی دھمکی سنا رہی ہے۔ شرم و حیا کے لٹ جانے سے میرے لیے یہ بڑا آسان راستہ ہے کہ میں جیل کی کوٹھڑی قبول کرلوں۔ مقصد یہ تھا کہ جس میں انسان کی حیا رخصت ہوجائے ایسی آزادی اور عزت کو پرکاہ برابر نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان خیالات کے اظہار کے بعد یوسف (علیہ السلام) نے دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اپنے رب سے فریاد کی کہ اے رب کریم میں کب تک اس آزمائش میں پڑا رہوں گا۔ جس طرف یہ مجھے بلا رہی ہے۔ اے میرے رب اگر تو نے مجھے ان کے مکرو فریب سے نہ بچایا تو انسان ہونے کے ناتے ڈر ہے کہ کہیں میں ان کی طرف مائل ہو کر تیری بارگاہ میں جاہلوں میں شامل نہ ہوجاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی فریاد قبول کی اور انہیں عورتوں کے مکرو فریب، بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ کردیا۔ کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی فریادیں قبول کرنے والا اور ان کے دلوں کے بھید جاننے والاہے۔ مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) نے گناہ کے بجائے جیل کو ترجیح دی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سے برائی سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعا قبول فرماتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو گناہ سے محفوظ فرمالیا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ سننے اور جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ دعا قبول کرنے اور دلوں کے بھید جاننے والا ہے : 1۔ اللہ نے اس کی دعا قبول فرمائی اور عورتوں کی تدبیر سے اسے دور رکھا بے شک وہ سننے اور جاننے والاہے۔ (یوسف :34) 2۔ اللہ دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہے۔ (البقرۃ:186) 3۔ اللہ فرماتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (المومن :60) 4۔ بے شک میرا رب دعاؤں کو سننے والا ہے۔ (ابراہیم :39) 5۔ بے شک اللہ دعاؤں کو سننے والا ہے۔ (آل عمران :38) 6۔ نوح (علیہ السلام) نے پکارا اے میرے پروردگار میں مغلوب ہوں میری مدد فرما۔ (القمر :10) 7۔ کون ہے جو مجبور کی پکار کو سنتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے ؟ (النمل :62) 8۔ جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اللہ کی طرف جھکتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔ (الروم :33)