وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور (ایسا ہوا کہ دونوں دروازوں کی طرف دوڑے اس طرح کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے آگے نکل جانا چاہتا تھا (یوسف اس لیے کہ عورت سے بھاگ نکلے، عورت اس لیے کہ اسے نکل بھاگنے سے روکے) اور عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے سے کھینچا اور دو ٹکڑے کردیا، اور (پھر اچانک) دونوں نے دیکھا کہ عورت کا خاوند دروازے کے پاس کھڑا ہے، تب عورت نے (اپنا جرم چھپانے کے لیے فورا بات بنا لی) اور کہا جو آدمی تیرے اہل خانہ کے ساتھ بری بات کا ارادہ کرے۔ اس کی سزا کیا ہونی چاہیے ؟ کیا یہی نہیں ہونی چاہیے کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا (کوئی اور) دردناک سزا دی جائے؟
فہم القرآن : (آیت 25 سے 29) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بے حیائی سے بچتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگنا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی عفت و عصمت بچاتے ہوئے دروازے کی طرف دوڑے۔ ان کو پکڑنے کے لیے عزیز مصر کی بیوی پیچھے بھاگتی ہے۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) دوڑتے ہوئے دروازے تک پہنچ گئے۔ پیچھے سے عزیز مصر کی بیوی نے ان کیقمیص کھینچی۔ اس حالت میں حضرت یوسف دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوئے جونہی دروازہ کھلا۔ دونوں نے عزیز مصر کو دروازے کے سامنے پایا۔ اپنے خاوند کو دیکھ کر عورت نے اپنی کرتوت کو یوسف (علیہ السلام) کے ذمہ لگاتے ہوئے اپنے خاوند سے مطالبہ کیا کہ اس مجرم کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ جس نے آپ کی اہلیہ کے ساتھ برا ارادہ کیا ہو۔ ہاں اس کی سزا تو جیل بھیجنا یا اس سے بھی سخت ترین سزا ہونی چاہیے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) فوراً فرماتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ بلکہ اس عورت نے مجھے ورغلانے کی کوشش کی ہے۔ عورت کے خاندان میں ایک شخص نے گواہی دی کہ اگر یوسف کی قمیص آگے سے پھٹی ہے۔ تو عورت سچی اور یوسف جھوٹا ہے۔ اگر اس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو عورت جھوٹی اور یوسف سچ کہتا ہے۔ جب یوسف (علیہ السلام) کی قمیص دیکھی گئی تو وہ پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی۔ جس پر عزیز مصر نے کہا یہ عورتوں کی ایک چال اور مکرو فریب ہے۔ بلاشبہ تمہارا مکرو فریب بڑا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بڑی عاجزی سے کہا جو ہونا تھا ہوگیا۔ اس بات کو آگے بڑھانے کے بجائے جانے دیجیے پھر اپنی بیوی کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ تجھے اپنے گناہ کی معافی مانگنی چاہیے۔ یقیناً تو ہی خطاکار ہے۔ اس موقعہ پر عزیز مصر نے انتہائی دانش مندی اور حوصلہ سے کام لیتے ہوئے معاملے کو نپٹانے کی کوشش کی۔ تاکہ مزیدبدنامی سے بچا جاسکے۔ مگر معاملہ تین کے بجائے چوتھے آدمی تک پہنچ چکا تھا۔ ظاہر ہے کہ بڑے لوگوں کے محلات میں کئی نوکر اور خادمائیں ہوا کرتی ہیں۔ ان حالات میں بات کا پھیلنا یقینی ہوتا ہے۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے قاضی سلیمان منصور پوری سیشن جج آف ریاست پٹیالہ لکھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ہوشیار شخص تھا، اور اس نے جو طریق استدلال اختیار کیا۔ وہ صاف طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ شخص بالکل عورت کی حمایت میں تھا۔ اگر ہم عورت کے اس بیان کو مروجہ قانون کے تحت لائیں تو یہ ایک استغاثہ اقدام زنا بالجبر کا تھا۔ استغاثہ کی صداقت خود مستغیثہ کے بیان اور حالت سے ہونی چاہیے تھی۔ جس میں عورت کے لباس اور جسم کو دیکھا جاتا۔ تشدد کے نشانات تلاش کیے جاتے ہیں۔ لیکن رائے دہندہ چونکہ عورت کے گھرانے کا تھا۔ اس لیے اس نے تحقیقات کا یہ حقیقی پہلو اختیار ہی نہیں کیا۔ بلکہ عورت کے خالی خولی بیان کو مان کر حضرت یوسف (علیہ السلام) پر صفائی کا بار ڈال دیا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندہ کی عفت و عصمت کو واضح کرنا تھا۔ ورنہ طریقہ تحقیقات خالی از تعصب ہرگز نہ تھا۔ اب قانون کی دوسری بات سمجھو کہ اس شاہد نے دریافت اصلیت کے لیے ایک قرینہ کو اختیار کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہی امر سکھلانے کے لیے اس کا ذکر فرمایا ہے کہ جب شہادت واقعہ موجود نہ ہو تب قرائن کا استعمال کیا جا سکتا ہے اور فقدان شہادت اصلیہ کے وقت قرائن صحیحہ اور قیاسات قریبہ بھی شہادات کا کام دے جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے عمر فاروق اور علی مرتضیٰ (رض) کے فیصلہ جات کو پڑھا ہے۔ جن لوگوں کی نظر قاضی کعب بن سرازدی اور قاضی شریح بن الحارث کندی اور قاضی ایاس بن معاویہ مزنی اور فقیہ محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے فیصلہ جات تک پہنچی ہے وہ جانتے ہیں کہ آئمۂ اسلام نے کس عمدگی سے اس اصول کا استعمال کیا ہے اور وہ فراست صادقہ کی شمولیت سے حقیقت اصلیہ کا انکشاف عمدگی سے کیا کرتے تھے۔ (سیرت رحمت اللعلمین) مسائل: 1۔ برائی سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن :مکر کا مفہوم : 1۔ بے شک یہ تیری تدبیر ہے عورتوں کا مکر بہت بڑا ہوتا ہے۔ (یوسف :28) 2۔ بے شک یہ مکر ہے جو تم نے شہریوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کے لیے کیا ہے۔ (الاعراف :123) 3۔ اللہ نے اسے ان کی خفیہ تدبیروں سے محفوظ رکھا۔ (المومن :45) 4۔ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے بھی تدبیر کی اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (الانفال :30) 5۔ ان کے مکر کا انجام دیکھو ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النمل :51)