وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
اور یاد رکھو یہ ضرور ہونا ہے کہ ہم تمہارا امتحان لیں۔ خطرات کا خوف، بھوک کی تکلیف، مال وجان کا نقصان، پیداوار کی تباہی، وہ آزمائشیں ہیں جو تمہیں پیش آئیں گی۔ پھر جو لوگ صبر کرنے والے انہیں (فتح و کامرانی کی) بشارت دے دو
فہم القرآن : (آیت 155 سے 156) ربط کلام : غم اور آزمائش کی مختلف صورتیں۔ اسلام کے اوصاف حمیدہ میں یہ وصف بھی شامل ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو کسی مبالغہ آمیزی اور خوش فہمی کا شکار نہیں ہونے دیتا کہ جو نہی تم اپنی زبان سے کلمہ ادا کرو گے تو بہاریں لوٹنے کے ساتھ ہر قسم کی کامیابیاں تمہارے دامن میں سمٹ آئیں گی۔ اسلام اور کسی نظریے کی تاریخ بھی اس بات کی تائید نہیں کرتی کہ جو نہی کسی نے اسے قبول کیا تو ان کے لیے نعمتوں اور سہولتوں کے دروازے کھل گئے ہوں۔ اس کے برعکس یہ ہوا کرتا ہے کہ تحریک کے ابتدائی معاون بیش بہا قربانیاں پیش کیا کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے صبر واستقامت کا مظاہرہ کریں تو ایک وقت آیا کرتا ہے کہ اسی یا آئندہ نسل کے لیے دنیا میں آسانیوں کے راستے ہموار ہوجایا کرتے ہیں۔ شدید کشمکش اور قربانیوں سے پہلے ان سہولتوں کا تصور کرنا خوش فہمیوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ ایسی ہی صورت حال کے پیش نظر یہاں تحویل قبلہ کے احکامات کے دوران شہادتوں اور آزمائشوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ ترک وطن اور جانی قربانیوں کے ساتھ دشمن کا خوف، غربت وافلاس، مال ودولت کی کمی، اعزاء و اقرباء کی جدائی، موت کی صورت میں ہو یا ہجرت کی شکل میں اور اناج کی کمی سے تمہیں آزمایا جائے گا۔ یہاں پہلے شہادت کا ذکر فرما کر یہ تصوّر دیا کہ اللہ کے بندے جان کی پروا نہیں کرتے لہٰذا ان کے لیے دنیا کا مال ومتاع کیا حیثیت رکھتا ہے گویا کہ بڑی آزمائشوں سے گزرنے والے چھوٹی چھوٹی آزمائشوں سے نہیں گھبرایا کرتے۔ صحابہ کرام {رض}کو فتح مکہ تک پے درپے تمام امتحانات اور آزمائشوں سے گزارا گیا اور وہ ہر امتحان میں سرخرو ہوئے تب جا کر ان کے لیے کامیابیوں کے دروازے کھول دیئے گئے۔ آزمائش زندگی کا جز ولاینفک ہے‘ بالخصوص دین اسلام کی سر بلندی کے لیے یہ اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ اس کے لیے دو حرف تاکید استعمال کیے گئے ہیں۔ عربی کے طلبہ جانتے ہیں کہ جب بیک وقت لام مفتوح اور تشدید کے ساتھ نون آئے تو یہ تاکید مزید کا پتہ دیتے ہیں۔ جس کا مفہوم یہ ہوا کہ آزمائش کے کربناک مراحل سے تمہیں ہر حال میں گزرنا ہوگا۔ اسی بات کو قرآن مجید نے دوسرے انداز اور الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے : ﴿اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْـرَكُـوٓا اَنْ يَّقُوْلُوٓا اٰمَنَّا وَهُـمْ لَا يُفْتَنُـوْنَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِيْن﴾ [ العنکبوت : 2، 3] ” کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ” اٰمَنَّا“ کہہ کر انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور آزمائش میں مبتلا نہ کیے جائیں گے؟ ہم نے ان سے پہلوں کو بھی آزمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ سچوں اور جھوٹوں کو ضرور دیکھ لے گا۔“ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش مومن کو ذلیل کرنے کے لیے نہیں آتی بلکہ آزمائش انسان کی خوابیدہ صلاحیتیں ابھارنے اور آخرت میں اس کے مراتب میں اضافہ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ دنیا میں مجرموں کے لیے مثال بنتی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو کر بھی اپنے رب کے احسان مند اور شکر گزار بننے کے لیے تیار نہیں ہو جب کہ اس کے بندے نعمتیں چھنوا کر بھی اس کے حضور صبروشکر کا مظاہرہ کیے ہوئے ہیں۔ رسول کریم {ﷺ}کو فرمایا گیا ہے کہ آپ ایسے صبر و حوصلہ کرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں مسرت وشادمانی کا پیغام دیجیے۔ کیونکہ یہ آزمائش کے وقت سر پیٹنے اور واویلا کرنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن اور حوصلہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ چھننے والی نعمت کیا چیز ہے ہماری جان عزیز بھی رب کریم کی امانت ہے۔ یہ نعمت تو آج مجھ سے رخصت ہورہی ہے جب کہ مقررہ وقت پر میں نے بھی اسی کے حضور لوٹنا ہے۔ صبر وہ نیکی ہے کہ آدمی کو جب بھی سابقہ تکلیف یاد آئے اور اس پر ” اِنَّا لِلّٰہِ“ کے الفاظ ادا کرے۔ اس کو پہلے کی طرح اجرِعظیم سے نوازاجائے گا۔ [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب مایقال عند المصیبۃ] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو خوف، غربت، مال کی کمی، پیاروں کی موت اور رزق کی قلّت کے ساتھ آزماتا ہے۔ 2۔ مصائب پر صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ خوشخبری کا پیغام دیتا ہے۔ 3۔ مصیبت کے وقت ’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ“ پڑھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : آزمائش : 1۔ ایمان کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت :2) 2۔ اللہ نے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا۔ (البقرۃ :214) 3۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ:214) 4۔ جنت میں داخلے کے لیے آزمائش ضرور ہوتی ہے۔ (آل عمران :142)