اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ
پس (بہتر یہ ہے کہ) یوسف کو مار ڈالیں، یا کسی جگہ پھینک آئیں، تاکہ ہمارے باپ کی توجہ ہماری ہی طرف رہے اور اس کے نکل جانے کے بعد ہمارے سارے کام سدھر جائیں۔
فہم القرآن : (آیت 9 سے 10) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بردران یوسف کا اپنے باپ اور بھائی کے بارے میں منفی خیالات کے تحت خفیہ اجلاس کرنا اور ایک گھناؤنے فعل پر متفق ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دس بیٹے اپنے بھائی کے خلاف سازش کرنے کے لیے ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور یہ سوچ و بچار کرنے لگے کہ یوسف سے کس طرح چھٹکارا پایا جائے۔ جن میں 9(نو) بھائی اس بات پر متفق ہوئے کہ یوسف کو جان سے مار ڈالنا چاہیے یا کہیں دور پھینک دینا چاہیے۔ اس کے بعد باپ کی توجہ خود بخود تمہاری طرف ہوجائے گی۔ اس جرم کے بعد ہم اللہ تعالیٰ سے توبہ کرکے پھر نیکو کار بن جائیں گے۔ (یاد رہے کہ بعد میں توبہ کرنے کی نیت سے گناہ کرنے سے گناہ میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی فکر سے محفوظ فرمائے۔) برادران یوسف نے اسی سوچ کے تحت یہ سازش تیار کی تھی۔ دسویں بھائی جس کا نام یہودہ بیان کیا گیا ہے جو سب سے بڑا تھا۔ اس نے برادران کو قتل یوسف سے منع کیا اور انہیں سمجھایا کہ ہمارا مقصد تو اپنے باپ کی توجہ چاہنا ہے۔ اس لیے ہمیں قتل جیسا سنگین جرم نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ یوسف سے ضرور چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو یوسف کو کسی گمنام کنویں میں پھینک دواسے کوئی راہ گذر قافلہ اٹھا کے لے جائے گا۔ اس بات پر متفق ہونے کے بعد وہ سب کے سب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ اسی طرح کی سوچ و بچار اور سازش اہل مکہ نے رسول محترم (ﷺ) کے خلاف کی تھی۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ لوگوں کی توجہ روز بروز نبی (ﷺ) کی طرف ہو رہی ہے۔ اور ہر روز کسی نہ کسی خاندان سے کوئی نہ کوئی شخص حلقۂ اسلام میں داخل ہو رہا ہے۔ تو انہوں نے ایک خفیہ مشاورت میں طے کیا تھا۔ ﴿وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالِیُثْبِتُوْکَ أَوْ یَقْتُلُوْکَ أَوْ یُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللَّہُ وَاللَّہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ﴾[ الانفال :30] ” اے رسول وہ وقت یاد کیجیے جب کافر آپ کے خلاف سازش کرتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ اسے قید کردیا جائے یا قتل کردینا چاہیے یا اسے ہمیشہ کے لیے اپنی سرزمین سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ وہ اس طرح کی سازشیں کر رہے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایک تدبیر کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والاہے۔“ مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ کیا۔ 2۔ بعض لوگ جرم اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ بعد میں توبہ کرلیں گے جو پرلے درجے کا گناہ ہے۔ تفسیر بالقرآن :کفار مکرو فریب کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے : 1۔ کفار نے مکرو فریب کیا اور اللہ نے تدبیر کی، اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ (آل عمران :54) 2۔ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے تدبیر کی اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ (الانفال :30) 3۔ ان کے مکر کا انجام دیکھیں ہم نے مکر کرنے والوں اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النمل :51) 4۔ عنقریب جرائم اور مکر وفریب کرنے والوں کو اللہ کے ہاں سے ذلت اور سخت عذاب کا سامنا کرناپڑے گا۔ (الانعام :123) 5۔ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے ان کے مکر کے مقابلہ میں تدبیر کی اور انہیں اس کا شعور بھی نہیں تھا۔ (النمل :50)