إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور جب ایسا ہوا تھا کہ (یوسف کے سوتیلے بھائی آپس میں) کہنے لگے، ہمارے باپ کو یوسف اور اس کا بھائی (بنیامین) ہم سب سے بہت زیادہ پیارا ہے حالانکہ ہم ایک پوری جماعت ہیں (یعنی ہماری اتنی بڑی تعداد ہے) اور یقینا ہمارا باپ صریح غلطی پر ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں حسد و بغض رکھنا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال، لیاقت و صلاحیت اور مستقبل میں ان کے نبی بننے کے آثار دیکھ کر ( جن کی نشاندہی خواب کی تعبیر میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کرچکے تھے۔) ان اوصاف حمیدہ کی بنیاد پر حضرت یعقوب کا دوسرے بیٹوں کی نسبت یوسف (علیہ السلام) سے زیادہ شفقت اور محبت کا اظہار کرتے تھے۔ بعض مفسرین نے ان سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی محبت کا سبب حضرت یوسف (علیہ السلام) کا چھوٹا ہونا بیان کیا ہے۔ یہ وجہ اس لیے لائق توجہ نہیں کہ عمر کے لحاظ سے حضرت بنیامین سب سے چھوٹے تھے۔ بہرحال یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی محبت کی وجہ سے یوسف (علیہ السلام) کے بھائی حسدو بغض کا شکار ہوئے۔ اور انہوں نے خفیہ مشاورت میں یہ بات طے کی کہ ہمارے والد واضح طور پر بھٹک چکے ہیں۔ کیونکہ وہ ہم سے زیادہ یوسف کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم طاقتور ہیں۔ حسدو بغض اس قدر مہلک مرض ہے کہ جس شخص میں یہ پیدا ہوجائے وہ دوسرے کے بارے میں اس قدر منفی اور سطحی خیالات کا اظہار کرتا ہے جن کا کوئی معقول آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صاحبزادوں نے اپنے عظیم اور مشفق باپ جو وقت کے نبی ہونے کے علاوہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے پوتے ہیں۔ ایسے عظیم المرتبت باپ کے بارے کہنے لگے کہ ہمارا باپ واضح طور پر بھٹک چکا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ بوڑھے باپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خدمت اور ان کی تابعداری کا رویہ اختیار کرتے اور اپنے منفی کردار پر نظر ثانی کرتے۔ اس کی بجائے انہوں نے اپنی طاقت اور جتھا بندی پر فخر کا اظہار کیا۔ اور اس کے لیے جائز طریقہ استعمال کرنے کے بجائے غلط طریقہ کار اختیار کیا۔ جس سے نہ صرف ان کے بوڑھے باپ اور چھوٹے بھائی کو تکلیفیں پہنچیں بلکہ ان کے اپنے دامن پر بھی دھبہ لگا۔ انہوں نے حسد میں آکر یہ بھی نہ سوچا کسی کی الفت اور محبت حاصل کرنے کے لیے طاقت نہیں، اس کے لیے عاجزی، احترام اور بڑوں کی خدمت کرنا پڑتی ہے۔ کیونکہ محبت اور الفت کسی منڈی کا مال نہیں کہ اسے سرمایہ یا طاقت کی بنیاد پر حاصل کیا جاسکے۔ یہ تو دل کا معاملہ ہے اور تمام انسانوں کے دل اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اچھے کام کے لیے اچھا طریقۂ کاراختیار کرنا لازم ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں نبی اکرم (ﷺ) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ کہ اے رسول! اگر آپ ساری زمین کے خزانے خرچ کردیتے تب بھی اپنے ساتھیوں کے دلوں میں محبت و الفت پیدا نہیں کرسکتے تھے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ اس نے آپ کے اصحاب کے دلوں میں یکجہتی اور محبت پیدا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ ( الانفال :63) باہمی محبت کے لیے نبی اکرم (ﷺ) کی دعا : (عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بِمِثْلِہٖ قَالَ وَکَانَ یُعَلِّمُنَا کَلِمَاتٍ وَلَمْ یَکُنْ یُعَلِّمُنَاہُنَّ کَمَا یُعَلِّمُنَا التَّشَہُّدَ اللَّہُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاہْدِنَا سُبُلَ السَّلاَمِ وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوْرِ وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَبَارِکْ لَنَا فِیْٓ أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوْبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّاب الرَّحِیْمُ وَاجْعَلْنَا شَاکِرِیْنَ لِنِعْمَتِکَ مُثْنِیْنَ بِہَا قَابِلِیْہَا وَأَتِمَّہَا عَلَیْنَا )[ رواہ ابو داؤد، باب التشھد] ” حضرت ابو وائل اور حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہمیں رسول اللہ (ﷺ) یہ کلمات سکھلایا کرتے تھے جس طرح کہ آپ ہمیں تشہد کے کلمات سکھلاتے تھے۔ اے اللہ ہمارے معاملات درست فرما، ہمارے دلوں میں محبت پیدا فرما، ہمیں سیدھی راہ دکھا، ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف رہنمائی عطا فرما اور ہمیں ظاہری اور باطنی فحاشی سے بچا۔ اے اللہ ہماری سماعت، بصارت، دلوں، بیویوں اور اولاد میں برکت عطا فرما اور ہم پر رجوع فرما۔ یقیناً تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار اور اپنی تعریف کرنے والے بنا اور ہمیں اس کے قابل بنا اور انہیں ہم پر پورا فرما۔“ مسائل: 1۔ حسد بہت بری چیز ہے۔ 2۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی اپنے باپ کو غلطی پر سمجھتے تھے۔ تفسیر بالقرآن :برادران یوسف کا اپنے عظیم باپ کے بارے میں روّیہ : 1۔ بے شک ہمارا باپ بہک گیا ہے۔ (یوسف :8) 2۔ واللہ تم تو یوسف کی یاد میں لگے رہو گے یہاں تک کہ ہلاک ہوجاؤ۔ (یوسف :85) 3۔ حضرت یعقوب کے بیٹوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تو پرانے وہم میں مبتلا ہیں۔ (یوسف :95)