سورة یوسف - آیت 7

لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو لوگ (حقیقت حال) پوچھنے والے ہیں (اگر وہ سمجھیں تو) ان کے لیے یوسف اور اس کے بھائیوں کے معاملہ میں (موعظت و عبرت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : اے اہل مکہ جس واقعہ کے بارے میں تم نے سوال کیا ہے۔ اس کو واقعہ برائے واقعہ کے طور پر سننے کی بجائے اسے سبق آموزی اور عبرت حاصل کرنے کے لیے سنو۔ اس سورۃ کے تعارف میں عرض کیا ہے کہ اہل مکہ نے حسب عادت رسول معظم کو لاجواب اور پریشان کرنے کے لیے سوال کیا تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کنعان میں رہائش پذیر تھے۔ ان کا بیٹا یوسف کس طرح مصر کا حکمران بنا۔ اور بنی اسرائیل کیونکہ مصر پہنچے؟ اس سوال کا تفصیلی جواب دینے سے پہلے اہل مکہ کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے متعلق تم نے جو سوال کیا ہے۔ اگر تم اس کے جواب پر غور کرو تو تمہارے لیے اس واقعہ کی ایک ایک کڑی میں راہنمائی اور بے انتہا سامان عبرت موجود ہے۔ 1۔ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کے بھائی سوتیلا پن اور اپنے بھائی یوسف کی صلاحیتوں کو دیکھ کر ان کے مخالف ہوئے تھے۔ اسی طرح تم حسد و بغض میں آکر اپنے بھائی یعنی محمد رسول اللہ (ﷺ) کی مخالفت پر کمربستہ ہوچکے ہو۔ 2۔ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کی مخالفت اور سازش اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تھی ایسے ہی تمہاری مخالفت اور سازشیں رسول معظم (ﷺ) کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گی۔ 3۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے اپنی طرف سے ختم کرنے کی پوری کوشش کی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں مامون اور محفوظ فرمایا۔ اسی طرح تم بھی رسول معظم (ﷺ) کو ختم کرنے کے درپے ہو جس میں تم کبھی کامیاب نہیں ہوپاؤ گے۔ 4۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا گھر سے نکلنا ان کے عروج و اقبال کا ذریعہ بنا تھا۔ تم بھی نبی (ﷺ) کو مکہ سے نکالنا چاہتے ہو لیکن یاد رکھو یوسف (علیہ السلام) سے کئی گنا زیادہ رسول معظم (ﷺ) کی ہجرت ان کے عروج و اقبال کا زینہ ثابت ہوگی۔ 5۔ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے مجبور اور لاچار ہو کر یوسف (علیہ السلام) کے سامنے دست سوال پھیلایا تھا وقت آئے گا کہ تمہیں بھی حضرت محمد (ﷺ) کے سامنے دست سوال پھیلانا پڑے گا۔ 6۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے بالآخر اس سے معافی کی درخواست کی تھی۔ یہ وقت بھی آکر رہے گا کہ تم رسول معظم (ﷺ) کے سامنے نہایت عاجزی کے ساتھ معافی کے خواستگار ہو گے۔ 7۔ یوسف (علیہ السلام) ملک مصر کے حکمران بنے تھے۔ ان کے بعد ان کی اولاد یعنی بنی اسرائیل ایک مدت تک مصر میں حکمرانی کرتے رہے۔ جس رسول کی مخالفت میں تم ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو عنقریب وقت آنے والا ہے کہ نبی معظم (ﷺ) اور آپ کے متبعین کی پوری دنیا میں عزت اور حکمرانی کا پھریرا بلند ہوگا۔ فضول سوال سے بچنا چاہیے : سوال کرتے وقت اس چیز کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ فضول قسم کا سوال نہ کیا جائے اس سے اللہ تعالیٰ نے مومنین کو منع فرمایا ہے۔ ﴿یَآأَیُّہَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْا لَا تَسْأَلُوْا عَنْ أَشْیَآءَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔ قَدْ سَأَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوْا بِہَا کَافِرِیْنَ [ المائدۃ: 101۔102] ” اے ایمان والو! ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جب قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے درگزر فرمایا اور اللہ خوب بخشنے والا نہایت بردبار ہے۔ تم سے پہلے ان کے بارے میں کچھ لوگ سوال کرچکے، پھر وہ ان سے منکر ہوگئے۔“ مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے واقعہ میں نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن : قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے : 1۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یوسف :7) 2۔ انبیاء کے قصے برحق ہیں مومنین کے لیے اس میں نصیحت ہے۔ (ھود :120) 3۔ یہ قصے برحق ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ (آل عمران :62) 4۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصے میں عقل مندوں کے لیے عبرت ہے۔ (یوسف :111) 5۔ انبیاء کے واقعات میں نبی کریم اور آپ کے تابع داروں کے لیے تسلی کا سامان ہے۔ ( ہود :120)