إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ
اور (دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ یوسف نے اپنے باپ سے کہا تھا اے میرے باپ ! میں نے (خواب میں) دیکھا کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند اور دیکھا کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 4 سے 5) ربط کلام : نبی (ﷺ) جس واقعہ سے ناآشنا تھے اس کی ابتدا یوں ہوتی ہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی دو بیویوں سے گیارہ بیٹے تھے۔ جن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان سے چھوٹے بنیامین آپس میں حقیقی بھائی تھے۔ حضرت یوسف نہایت ہی خوبصورت، ذہین و فطین اور سمجھدار تھے۔ ان کی دانش مندی کا اس بات سے انداہ لگائیں کہ ابھی ان کی عمر مبارک آٹھ؍نوسال کی تھی کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے گیارہ ستارے، چاند اور سورج سجدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ خواب کسی کے سامنے بیان کرنے کی بجائے اپنے والد گرامی کے سامنے بیان کیا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس خواب کی تعبیر میرے والد گرامی کے سوا کوئی اور نہیں جان سکتا۔ گویا کہ صغر سنی کے باوجود اپنے باپ کی سیرت طیبہ اور ان کی دانشمندی کا ادراک کرچکے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے خواب کا تذکرہ صرف اپنے باپ کے سامنے کیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) معصوم لخت جگر کا خواب سنتے ہی چونک گئے اور فرمایا۔ پیارے بیٹے اس خواب کو اپنے بھائیوں کے سامنے ذکر نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے خلاف کوئی سازش کریں۔ کیونکہ شیطان انسان کا کھلم کھلا دشمن ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے عیاں ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب یوسف کے بارے میں ان کے بھائیوں کے رویے سے منفی اثرات محسوس کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں احساس ہوا کہ ماں کی طرف سے سوتیلے بھائیوں کو اس خواب کا علم ہوا تو ان کے لیے اسے برداشت کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) نہایت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ پیغمبر اپنے زمانے کا سب سے بڑا دانشور انسان ہوا کرتا تھا۔ اسی بنا پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ” اے یوسف اپنے خواب کا اپنے بھائیوں کے سامنے ذکر نہ کرنا۔ کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔“ ایک طرف حضرت یوسف (علیہ السلام) کو شیطان کی دشمنی سے آگاہ فرمایا اور دوسری طرف اس کے بھائیوں کے بارے میں کھلے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے مبہم الفاظ کے ذریعے محتاط رہنے کی تلقین فرمائی۔ گیارہ ستاروں اور شمس و قمر کے سجدہ کرنے سے مراد یہ تھی۔ ایک وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس قدر بلند اقبال اور سرفرازی عطا کرے گا کہ اس کے گیارہ بھائی اور والدین اس کے سامنے سجدہ ریز ہوں گے۔ چنانچہ خواب کے تقریباً چالیس سال بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) ملک مصر جیسی عظیم الشان ترقی یافتہ مملکت کے فرماں روا بنے تو ان کے گیارہ بھائیوں اور والدین نے اس زمانے کی شریعت اور پروٹوکول کے مطابق حضرت یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کیا۔ جس کی تفصیل اسی سورت کی آیت 100سو میں بیان کی گئی ہے۔ سجدہ سے مراد حقیقی سجدہ بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت کی شریعت میں کسی بزرگ اور بڑے آدمی کو تکریمی سجدہ کرنا جائز تھا۔ لیکن شریعت محمدی میں اسے مطلقاً ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے۔ (دیکھیں۔ فہم القرآن، جلد اول، البقرۃ:34) مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) نے خواب میں گیارہ ستارے، چاند اور سورج کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے پایا۔ 2۔ ہر کسی سے خواب بیان نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں : 1۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو، سجدہ اسے کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ (حٰم السجدۃ:37) 2۔ اللہ کی تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر :98) 3۔ اے ایمان والو ! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو۔ (الحج :77) 4۔ اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ (النجم :62) 5۔ ہر چیز کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل :45) 6۔ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (النحل :46) 7۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمٰن :6) 8۔ یقیناً جو ملائکہ آپ کے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف :206)