سورة یوسف - آیت 1

الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

الر۔ یہ آیتیں ہیں روشن و واضح کتاب کی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 1 سے 3) الٓرٰ۔ حروف مقطعات ہیں۔ جن کے بارے میں عرض کیا جاچکا ہے کہ ان کا حقیقی معنیٰ اور مفہوم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ عرب دانشوروں کا طریقہ تھا کہ شاعر اور ادیب اپنا کلام پیش کرنے سے پہلے ” طرح مصرعہ کے طور پر“ چند الفاظ کہتے جس کا مفہوم بیان کرنا ضروری خیال نہیں کرتے تھے۔ اسی روایت کے پیش نظر صحابہ (رض) نے اس کا معنیٰ جاننے اور اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے نبی معظم (ﷺ) سے استفسار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور نہ ہی نبی معظم (ﷺ) نے حروف مقطعات کا مفہوم بتلانے کی ضرورت محسوس فرمائی۔ کیونکہ اس کا دین کی تفہیم اور عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ ورنہ آپ اس کا مفہوم ضرور بیان فرماتے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔ یعنی ایسی کتاب جس نے حق وباطل کے درمیان حدِّ فاصل قائم کردی ہے۔ اس کے احکام اور ارشادات بالکل غیر مبہم ہیں۔ اسے رب ذوالجلال نے واضح اور عربی زبان میں نازل فرمایا ہے تاکہ تم عقل و فکر کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کتاب اہل عرب کے لیے ہی نازل کی گئی ہے۔ بلکہ اس فقرے کا اصل مدعا یہ ہے کہ ” اے اہل عرب، تمہیں یہ باتیں کسی یونانی یا ایرانی زبان میں تو نہیں سنائی جا رہی ہیں، یہ تمہاری اپنی زبان میں ہیں، لہٰذا تم یہ عذر نہیں پیش کرسکتے کہ اس کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں، اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اس کتاب میں اعجاز کے جو پہلو ہیں جو کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتے ہیں، وہ تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ رہ جائیں۔“ بعض لوگ قرآن مجید میں اس طرح کے فقرے دیکھ کر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کتاب تو اہل عرب کے لیے ہے، غیر اہل عرب کے لیے نازل ہی نہیں کی گئی ہے، پھر اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ محض ایک سرسری سا اعتراض ہے جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر جڑ دیا جاتا ہے۔ انسانوں کی ہدایت کے لیے جو چیز بھی پیش کی جائے گی وہ بہر حال انسانی زبانوں میں سے کسی ایک زبان ہی میں پیش کی جائے گی۔ اس کے پیش کرنے والے کی کوشش ہوگی کہ پہلے اس قوم کو متاثر کرے جس کی زبان میں کتاب نازل کی گئی ہے اس کے بعد پھر وہ قوم دوسری قوموں تک اس تعلیم کے پہنچانے کا وسیلہ بنے۔ یہی ایک فطری طریقہ ہے کسی دعوت و تحریک کے بین الاقوامی پیمانے پر پھیلنے کا۔ اے نبی (ﷺ) ! ہم آپ کو قرآن کی زبان میں بہترین واقعہ سناتے ہیں جسے آپ پہلے سے نہیں جانتے۔ واقعہ کی اہمیت اور اس کے محکم اور سچا ہونے کے لیے چھ الفاظ استعمال فرمائے تاکہ معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی اس کی حقیقت تک پہنچ سکے۔ 1۔ ” تِلْکَ“ عربی زبان میں دور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اہل علم کا یہ طریقہ تھا کہ جب کسی عظیم چیز یا واقعہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا بالخصوص جو چیز یا واقعہ سامع کے احاطۂ شعور میں ہوتا۔ اس کی یاد دہانی کے لیے دور کا اشارہ استعمال کرتے تاکہ سننے والا اس کی اہمیت کا فی الفور احساس کرے۔ لہٰذا اس احساس کو اجاگر کرنے کے لیے ارشاد ہوتا ہے۔ کہ یہ وہی کتاب ہے۔ جس کا تذکرہ تورات، انجیل اور زبور میں پڑھتے ہو۔ 2۔ یہ واقعہ قرآن مجید کے الفاظ میں بیان کیا جا رہا ہے۔ جس کی آیات بالکل واضح اور اس کا مفہوم غیر مبہم ہے۔ 3۔ اسے نبی اکرم (ﷺ) نے نہ کسی سے سنا ہے اور نہ پڑھا ہے بلکہ اسے رب ذوالجلال نے آپ پر نازل فرمایا ہے۔ کلام میں رعب پیدا کرنے اور اسے سچ ثابت کرنے کے لیے ایک ہی آیت میں دو مرتبہ ’ ہم‘ کی ضمیراستعمال فرمائی ہے۔ 4۔ قرآن مجید کو عربی زبان میں نازل فرمایا۔ جو قواعد و ضوابط، فصاحت و بلاغت اور اثر انگیزی کے اعتبار سے دنیا کی تمام زبانوں سے جامع اور موثر زبان ہے۔ نزول قرآن کے وقت دنیا میں سب سے زیادہ یہی زبان بولی اور لکھی جاتی تھی۔ لسانیات کے حوالے سے اب بھی عربی زبان پوری دنیا میں اپنی نظیر آپ ہے۔ 5۔ قرآن مجید میں مختلف اقوام اور بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ جن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے واقعات کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جو قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موقعہ محل کے مطابق بیان ہوئے ہیں۔ لیکن جس ترتیب کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ شروع سے آخر تک بیان ہوا ہے یہ ترتیب کسی اور واقعہ میں نہیں پائی جاتی۔ اس لیے اس کے آغاز میں فرمایا ہے کہ ہم اس واقعہ کو بہترین انداز میں بیان کررہے ہیں۔ یہاں بھی جمع متکلم کی ضمیر دوبارہ استعمال فرمائی ہے۔ تاکہ سننے والے کو کامل یقین ہوجائے کہ اسے بیان کرنے والا کوئی عربی یا عجمی شخص نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔ 6۔ واقعہ کی سچائی اور اس کی اسنادی قوت میں مزید اضافہ کرنے کے لیے آخر میں پھر فرمایا کہ ہم ہی واقعہ کو بیان کرنے اور اس قرآن کو نازل کرنے والے ہیں۔ اے رسول (ﷺ) ! آپ اس کے ذکر سے پہلے بالکل اس سے ناآشنا تھے۔ مسائل: 1۔ قرآن مجید ایک واضح کتاب ہے۔ 2۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا۔ 3۔ کلام اللہ کو سمجھنے، پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ 4۔ قرآن مجید میں بہترین واقعات موجود ہیں۔ 5۔ قرآن کریم کے نزول سے پہلے آپ (ﷺ) ان واقعات سے بے خبر تھے۔ 6۔ وحی الٰہی سے پہلے نبی (ﷺ) بھی بے خبر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : قرآن مجید کے اوصاف : 1۔ قرآن مجید کی آیات واضح ہیں۔ (یوسف :1) 2۔ قرآن مجیدکی آیات محکم ہیں۔ (ھود :1) 3۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء :174) 4۔ قرآن کریم لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ:185) 5۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران :138) 6۔ قرآن مجیدلاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ:2) 7۔ قرآن مجیددلوں کے لیے شفا ہے۔ (یونس :57) 9۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر :9) 10۔ جن و انس مل کراس قرآن جیسا قرآن نہیں لاسکتے۔ (بنی اسرائیل :88) 11۔ رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ (البقرۃ:185) 12۔ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ (القدر :1)