فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ
پھر (دیکھو) ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جو عہد تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان میں اہل خیر باقی رہے ہوتے اور لوگوں کو ملک میں شر و فساد کرنے سے روکتے؟ ایسا نہیں ہوا مگر بہت تھوڑے عہدوں میں جنہیں ہم نے نجات دی، طلم کرنے والے تو اسی راہ پر چلے جس میں انہوں نے (اپنی نفس پرستوں کی) آسودگی پائی تھی، اور (وہ سب احکام حق کے) مجرم تھے۔
فہم القرآن : (آیت 116 سے 117) ربط کلام : پہلی اقوام کی تباہی کے دو بنیادی اسباب۔ اس سورۃ مبارکہ میں حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت لوط، حضرت صالح، حضرت شعیب، اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی اقوام کی تباہی اور اس کی وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے۔ آخر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں فرعون کا انجام بیان کرنے کے بعد سرور دوعالم کو مخاطب کرتے ہوئے آپ اور آپ کی امت کے مبلغین کو چند بنیادی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ حق کے راستے میں آنے والی ذہنی جسمانی اور مالی مشکلات پر صبر کرتے رہیے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کسی نیکی کرنے والے کے اجرو ثواب کو ضائع نہیں کرتا۔ اس کے بعد پہلی اقوام کی تباہی کے دو بنیادی اسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بے مثال اور انتھک کوشش کے باوجود ایسے لوگ کیوں نہ تیار ہوئے جو ان کو ملک میں دنگا فساد کرنے سے روکتے۔ جنہوں نے دنیا پرست ظالموں کی پیروی کی اور مجرمانہ طرز عمل اختیار کیا۔ ان کی تباہی کا سبب ان کا اپنا کردار تھا۔ اگر یہ اپنے آپ پر ظلم نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ کبھی انہیں اس انجام سے دو چار نہ کرتا کیونکہ وہ اصلاح کرنے والوں کو کبھی ہلاک نہیں کرتا۔ کسی قوم کی بقا اور اس کے ارتقاء کے لیے لازم ہے کہ اس میں اصلاح احوال کے لیے ایک منظم جماعت موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ افراد کی انفرادی اور ذاتی کمزوریوں سے در گزر کرلیتا ہے لیکن جب انفرادی کمزوریاں جرائم کی صورت اختیار کرتے ہوئے اجتماعی شکل اختیار کرلیں اور ان کی اصلاح کرنے والی کوئی منظم جماعت بھی پیدا نہ ہو۔ تو اس قوم کا وجود دنیا میں کینسر کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ جس کے منفی اثرات ہر جاندار یہاں تک کہ بلوں میں رہنے والی چیونٹیاں بھی محسوس کرتی ہیں۔ اس صورت حال کو بدلنے اور دنیا کے نظام کو متوازن اور ہموار رکھنے کے لیے ظالم قوم کو تباہی کے گھاٹ اتار کرانبیاء اور ان کے ساتھیوں کو بچا لیا جاتا ہے۔ عذاب عام کے وقت نیک لوگوں کو بچانے کا وعدہ انبیاء اکرام کی ذات کے ساتھ مشروط ہوا کرتا تھا۔ جب تک نبی کسی قوم میں موجود ہو اللہ تعالیٰ اس کی موجودگی میں بد سے بد ترین قوم پر بھی عذاب نازل نہیں کرتا۔ جس کا ثبوت انبیاء کرام یکے بعد دیگرے رخصت ہوچکے۔ اب اللہ تعالیٰ کا اصول یہ ہے وہ چاہے تو برے لوگوں کے ساتھ نیک لوگ بھی اس تباہی اور عذاب میں سپرد خاک ہوجائیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم : ” حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی محترم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا‘ تم میں سے جو برائی دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے‘ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر کم از کم دل سے نفرت کرے۔ یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔“ [ رواہ مسلم : باب امر بالمعروف] مسائل : 1۔ سابقہ امم میں فساد سے روکنے والے لوگ بہت کم تھے۔ 2۔ ظالموں کو دنیا کی عیش پرستی سے فرصت نہیں ملتی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اصلاح کرنے والوں کو ہلاک نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا : 1۔ اللہ کسی پر کوئی ظلم نہیں کرتا۔ (یونس :44) 2۔ بے شک اللہ کسی پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ (النساء :40) 3۔ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ ظلم کا ارادہ نہیں رکھتا۔ (المومن :31) 4۔ بے شک اللہ بندوں کے ساتھ ظلم نہیں کرتا۔ (الحج :10) 5۔ قیامت کے دن ہم عدل وانصاف کا ترازو قائم کریں گے اور کسی جان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء :47) 6۔ جو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو اس کا تمہیں پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (البقرۃ:272) 7۔ اللہ ان پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ اپنی جانوں پر خود ہی ظلم کرتے ہیں۔ (التوبۃ: 70۔ العنکبوت : 40۔ الروم :9)