سورة ھود - آیت 110

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی، پھر اس میں اختلاف کیا گیا اور تیرے پروردگار نے پہلے سے ایک بات نہ ٹھہرا دی ہوتی (یعنی یہ کہ دنیا میں ہر انسان کو اس کی مرضی کے مطابق مہلت عمل ملتی ہے) تو البتہ ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا، اور ان لوگوں کو اس کی نسبت شبہ ہے کہ حیرانی میں پڑے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 110 سے 111) ربط کلام : چند آیات پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کے مقابلہ میں فرعون کا رد عمل اور اس کا انجام ذکر ہوا تھا اور اب پھر موسیٰ (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر سورۃ ھود کا اختتام ہو رہا ہے۔ فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور ان کے معجزات کا انکار کیا تھا۔ فرعون سے آزادی ملنے کے بعد جب بنی اسرائیل کو تختیوں کی شکل میں مفصل کتاب عنایت کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر تورات کا انکار کیا کہ ہم اس وقت تک اس کے منجانب اللہ ہونے کا اقرار نہیں کریں گے۔ جب تک ہم براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل نہ کرلیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو بہت سمجھایا مگر وہ اپنی بات پر مصر رہے۔ تب مجبور ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی۔ جس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) قوم کے ستر (70) نمائندوں کو لے کر کوہ طور پر گئے وہاں ان لوگوں کو ایک مختصر مدت کے لیے موت نے آلیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجہ میں انہیں پھر زندگی عطا ہوئی تفصیل جاننے کیلئے الا عراف 155کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ فرعون اور بنی اسرائیل کی طرح ہی اہل مکہ اور یہود و نصاریٰ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں۔ اور بری طرح اس کتاب کے بارے میں ذہنی کشمکش کا شکار ہیں۔ آپ کا رب انہیں ان کے کردار کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ کیونکہ وہ ان کے فکر و عمل سے پوری طرح باخبر ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے مجرموں کی گرفت کا ایک اصول بیان فرمایا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرنے والے اور باغی، اللہ کی گرفت اور دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی سزا اور جزا کا وقت مقرر کر رکھا ہے جب یہ وقت پورا ہوجائے تو ہر کسی کو اس کے فکرو عمل کے مطابق دنیا میں ہی کچھ نہ کچھ جزا یا سزا مل جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کی رسی اللہ تعالیٰ اس قدر دراز کردیتا ہے انہیں دنیا میں کوئی خاص سزا نہیں ملتی۔ ایسے لوگوں کو ان کی موت کے بعد ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ مسائل : 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کتاب دی۔ 2۔ تورات کے بارے میں یہودیوں نے اختلاف کیا۔ 3۔ کفار کتاب اللہ کے متعلق شک میں مبتلا رہتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو ان کے اعمال کا پورا بدلہ دے گا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : جزا و سزا کا ایک وقت مقرر ہے : 1۔ تیرے پروردگار کی طرف سے اگر ایک بات پہلے سے مقرر نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ (ھود :110) 2۔ اگر تیرے پروردگار کی طرف سے پہلے سے بات مقرر نہ چکی ہوتی تو ان کے اختلافات کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ (یونس :19) 3۔ اگر تیرے رب کے کلمات سبقت نہ لے چکے ہوتے تو ان لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ ( حم السجدۃ:45) 4۔ تیرے رب کے کلمات اگر سبقت نہ لے جا چکے ہوتے تو ان کے درمیان فیصلہ ہوجاتا۔ (الشوریٰ:14) 5۔ اگر ایک بات کی تمہارے پروردگار کی طرف سے میعاد مقرر نہ ہوچکی ہوتی تو عذاب لازم ہوجاتا۔ (طٰہٰ:129) 6۔ اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تمہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ:281)