وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ
اور جن لوگوں نے سعادت پائی تو وہ بہشت میں ہوں گے اور اسی میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں، (اس کے خلاف کچھ ہونے والا نہیں) مگر ہاں اس صورت میں کہ تیرا پروردگار چاہے یہ (سعیدوں کے لیے) بخشش ہے ہمیشہ جاری رہنے والی۔
فہم القرآن : ربط کلام : جہنمیوں کے بعدنیک لوگوں کا تذکرہ اور ان کا انعام۔ ایک طرف جہنمی اپنے برے عقیدہ اور گھناؤ نے اعمال کی سزا پاتے ہوئے جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں گدھے کی طرح آوازیں نکال رہے ہوں گے۔ دوسری طرف صحیح عقیدہ رکھنے اور اس کے مطابق نیک اعمال کرنے والے سعادت مند حضرات، اللہ تعالیٰ کی میزبانی اور جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے رب کے شکریہ کے ترانے گارہے ہوں گے۔ جب یہ لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے تو اظہار تشکر کے طور پر برملا اعتراف کریں گے کہ ہمارے رب نے ہمارے ساتھ دنیا میں جو وعدے کیے تھے۔ ان سے ہم کئی گنا زیادہ پا رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ اعلان ہوگا کہ اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں قیام اور آرام کرو گے۔ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نہ ختم ہونے والی عطا اور جزا کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہاں پھر ﴿اِلَّامَاشَآءَ رَبُّکَ﴾ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ’’ مَا شَآءَ‘‘ کا معنی عربی میں ’’سَوَاءٌ‘‘ کا بھی آتا ہے یعنی کسی چیز کے برابر ہونا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح قیامت برپا ہونے کے بعد نئے زمین و آسمان کو دوام اور ہمیشگی ہوگی اسی طرح جنتیوں کا جنت میں ہمیشہ ہمیشہ قیام ہوگا۔ (عَنْ جَاِبٍر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ اَھْلَ الْجَنَّۃِ یَاْ کُلُوْنَ فِیْھَاوَیَشْرَبُوْنَ وَلَایَتْفُلُوْنَ وَلَایَبُوْلُوْنَ وَلَا یَتَغَوَّطُوْنَ وَلَا یَمْتَخِطُوْنَ قَالُوْا فَمَا بَال الطَّعَامِ قَالَ جُشَآءٌ وَرَشْحٌ کَرَشْحِ الْمِسْکِ یُلْھَمُوْنَ التَّسْبِیْحَ وَالتَّحْمِیْدَ کَمَا تُلْھَمُوْنَ النَّفَسَ) [ رواہ مسلم : باب فی صفات الجنۃ] ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا‘ جنتی لوگ جنت میں خوب کھائیں پیئیں گے، نہ تھوکیں گے‘ نہ پیشاب کریں گے‘ نہ رفع حاجت کریں گے اور نہ ہی ناک بہائیں گے۔ صحابہ کرام (رض) نے استفسار کیا تو پھر کھانے کا فضلہ کیا ہوگا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا‘ کھانے کا فضلہ ڈکار سے ختم ہوجائے گا ان کا پسینہ کستوری کا طرح ہوگا۔ اہل جنت کے دل میں سبحان اللہ‘ الحمد للہ کا الہام کیا جائیگا جیسے تمہاری سانس جاری رہتی ہے۔“ (عَنْ صُھَیْبٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ اِذَا دَخَلَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی تُرِیْدُوْنَ شَیْئًااَزِیْدُکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ اَلَمْ تُبَیِّضْ وُجُوْھَنَا اَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَتُنْجِنَا مِنَ النَّارِ قَالَ فَیُرْفَعُ الْحِجَابُ فَیَنْظُرُوْنَ اِلٰی وَجْہِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَمَا اُعْطُوْا شَیْئًا اَحَبَّ اِلَیْھِمْ مِنَ النَّظَرِ اِلٰی رَبِّھِمْ ثُمَّ تَلَا لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ)[ رواہ مسلم : باب اثبات رؤیۃ المؤمنین] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تم مزید کسی نعمت کو چاہتے ہو‘ جو میں تمہیں عطا کروں۔ جنتی عرض کریں گے‘ کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا اور دوزخ سے ہمیں نہیں بچایا ہے؟ آپ نے فرمایا‘ تب پردہ اٹھا دیا جائے گا۔ تمام جنتی رب العزت کے چہرے کا دیدار کریں گے۔ انہیں ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہوگی‘ جو پر ور دگار کی زیارت سے انہیں زیادہ محبوب ہو۔ اس کے بعد آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ” جن لوگوں نے اچھے عمل کیے ان کے لیے جنت ہے اور مزید بھی۔“ مسائل : 1۔ نیکو کار جنت میں جائیں گے۔ 2۔ سعادت مند ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ 3۔ جنتیوں پر اللہ کی عطا ہمیشہ جاری رہے گی۔ تفسیر بالقرآن :جنتیوں کا جنت میں قیام اور آرام ہمیشہ کے لیے ہوگا : 1۔ نیک لوگ جنت میں ہمیشہ رہیں گے اور جو کچھ اللہ نے ان کو عطا کیا ہے ختم نہ ہوگا۔ (ھود :108) 2۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کو ہمیشہ کیلئے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (الفتح :17) 3۔ ایمان والے اور عمل صالح کرنے والے ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ (البقرۃ:82) 4۔ ایمان والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا جس میں نہریں بہتی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ( النساء :57) 5۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ (النساء :13)