وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَّعْدُودٍ
اور ہم نے اس دن کو پیچھے نہیں ڈالا ہے مگر صرف اسلیے کہ ایک مقررہ وقت پر اس کا ظہور ہو۔
فہم القرآن : (آیت 104 سے 105) ربط کلام : جس دن تمام کے تمام لوگ حاضرہوں گے اور ان پر گواہ پیش کیے جائیں گے۔ اس دن کا پہلا قانون یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی بات نہ کر پائے گا۔ قیامت کے دن تمام کے تمام لوگ رب زوالجلال کی عدالت میں دست بستہ پیش کیے جائینگے۔ وہ دن اتنا بھاری اور خوفناک ہوگا۔ کہ حاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہوجائیں گے۔ سب لوگوں کی حالت یوں ہوگی جیسے کسی نے انہیں نشہ پلارکھا ہو۔ یہ حالت کسی نشہ کی وجہ سے نہیں بلکہ رب ذوالجلال کے جلال اور خوف کی وجہ سے ہوگی۔ ( الحج :2) حضرت جبریل امین (علیہ السلام) اور تمام ملائکہ دم بخودقطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ کوئی نبی، ولی اور فرشتہ۔ اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کی جرأت نہیں کرپائے گا۔ سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ اجازت عنایت فرمائیں گے اور وہ بھی وہی بات کرپائے گا جس کے کہنے کی اسے اجازت ہوگی۔ یہ دن آکے رہے گا یہ انسان کی مرضی پر ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف جانے کے راستہ کو اختیار کرے (النساء : 38۔39) دنیا میں لوگوں نے اپنے امتیاز ات قائم کر رکھے ہیں۔ ایک گورا ہے دوسرا کالاہے، کوئی سیّد اور کوئی راجپوت، ایک امیر ہے دوسرا غریب، ایک حکمران ہے اور دوسرا محکوم علیٰ ہذا القیاس۔ قیامت کے دن صرف دو طبقے ہوں گے۔ ایک نیک اور دوسرا بد۔ جنہیں قرآن مجید شقی اور سعید کے لقب سے پکارتا ہے ان میں سے کوئی بھی اللہ جل جلالہ کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرسکے گا یہاں تک کہ سرورِدوعالم (ﷺ) بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکیں گے۔ آپ سفارش کرنے کے لیے پہلے اپنے رب کی بارگاہ میں طویل سجدہ کریں گے نہ معلوم وہ سجدہ کس قدر طویل ہوگا۔ آپ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے رب کی وہ تعریف کروں گا جو اسی وقت مجھے القا کی جائے گی۔ یوں آپ کو اجازت مرحمت فرمائی جائے گی۔ قیامت کے دن آپ (ﷺ) کے سفارش کرنے کا انداز : ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں : نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا : قیامت کے دن ایمان دار لوگوں کو روک لیا جائے گا‘ یہاں تک کہ وہ اس وجہ سے پریشان ہو کر کہیں گے کہ کاش ! ہم کسی کو اپنے پروردگار کی خدمت میں سفارشی پیش کریں تاکہ وہ ہمیں اس سے نجات دلائے چنانچہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے‘ کہ آپ آدم ہیں اور سب کے باپ ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا‘ آپ کو جنت میں ٹھہرایا‘ ملائکہ سے آپ کو سجدہ کروایا اور آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے۔ آپ اپنے پروردگار کے حضور ہمارے لیے سفارش کریں تاکہ وہ ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے حضرت آدم (علیہ السلام) کہیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ہے وہ عذر پیش کرتے ہوئے اپنی اس غلطی کا ذکر کریں گے جو انہوں نے ممنوعہ درخت سے تناول کرکے کی تھی جب کہ انہیں اس کے قریب جانے سے روکا گیا تھا۔ وہ فرمائیں گے کہ تم نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ ! وہ پہلے پیغمبر ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبی بناکر بھیجا۔ چنانچہ وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے۔ وہ جواب دیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ہے اور وہ اپنی اس غلطی کا ذکر کریں گے جس کے وہ مرتکب ہوئے۔ انہوں نے اپنے پروردگار سے اپنے بیٹے کے بارے میں علم کے بغیرسوال کیا تھا۔ وہ فرمائیں گے کہ تم ابراہیم خلیل الرحمن کے پاس جاؤ۔ آپ نے فرمایا‘ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ جواب دیں گے‘ کہ میری یہ شان نہیں ہے اور وہ اپنے تین مرتبہ جھوٹ بولنے کا ذکر کریں گے‘ جو ان کی زبان سے نکلے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرمائیں گے تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ‘ وہ ایسے بندے ہیں‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے تورات عطا کی اور اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوئے اور ان سے قریب ہو کے سرگوشی فرمائی آپ (ﷺ) نے فرمایا تب لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ جواب دیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ہے۔ وہ اپنی اس غلطی کا تذکرہ کریں گے جو ایک شخص کو قتل کرنے کی صورت میں ان سے سرزد ہوئی تھی تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں‘ اس کے رسول ہیں‘ روح اللہ ہیں‘ اور اس کے کلمہ ہیں‘ آپ (ﷺ) نے فرمایا‘ تب لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی معذرت کریں گے‘ کہ میرا یہ مرتبہ نہیں ہے۔ تم حضرت محمد (ﷺ) کی خدمت میں جاؤ ! وہ ایسے بندے ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا‘ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے‘ میں اپنے رب سے اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کروں گا چنانچہ مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجازت دے دی جائے گی جب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا پس اللہ تعالیٰ مجھے سجدے میں پڑا رہنے دیں گے جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : محمد! سر اٹھاؤ اور کہو آپ کی بات کو سنا جائے گا اور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی اور مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا آپ نے فرمایا چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں اپنے رب کی پھر حمد و ثنا بیان کروں گا‘ اس کے بعد میں سفارش کروں گا‘ چنانچہ میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی۔ میں واپس آؤں گا اور میں انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا پھر میں دوسری مرتبہ جاؤں گا اور اپنے رب سے اس کی بار گاہ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کروں گا حاضری کی اجازت عطا کی جائے گی۔ جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو میں سجدے میں گر پڑوں گا۔ مجھے اللہ تعالیٰ سجدے میں رہنے دیں گے‘ جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے محمد! سر اٹھائیں اور عرض کریں‘ آپ کی بات سنی جائے گی اور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی اور سوال کریں آپ کا سوال پورا کیا جائے گا۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں اپنے رب کی حمد وثناء بیان کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھلائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا‘ تو میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی‘ تو میں بارگاہ عزت سے باہر آؤں گا اور میں لوگوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا پھر میں تیسری مرتبہ آؤں گا اور اپنے رب سے اس کی بار گاہ میں حاضر ہونے کی اجازت چاہوں گا تو مجھے اس میں حاضری کی اجازت عطا کی جائے گی جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو میں سجدہ ریز ہوجاؤں گا پس مجھے اللہ تعالیٰ سجدے میں رہنے دیں گے‘ جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ وہ مجھے سجدے میں رہنے دیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے‘ اے محمد! سر اٹھائیں اور بات کریں‘ آپ کی بات سنی جائے گی اور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی اور سوال کریں آپ کا سوال پورا کیا جائے گا۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں اپنے رب کی حمد و ثناء بیان کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھلائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی تو میں بارگاہ رب العزت سے باہر آؤں گا اور میں دوزخیوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ یہاں تک کہ دوزخ میں صرف وہی لوگ رہ جائیں گے‘ جن کو قرآن نے روک رکھا ہوگا‘ یعنی ان کے لیے دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ثابت ہوچکا ہوگا۔ اس کے بعد آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” عنقریب آپ کو آپ کا رب مقام محمود پر فائز کرے گا اور یہی وہ مقام ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی سے وعدہ کر رکھا ہے۔“ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی ﴿وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَۃٌ إِلَی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴾] مسائل : 1۔ قیامت کا دن مقرر ہے۔ 2۔ قیامت کے دن اللہ کے حکم کے بغیر کوئی بول نہیں سکے گا۔ 3۔ محشر میں نیک و بد کو جمع کیا جائیگا۔ تفسیربالقرآن :اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی بول نہیں سکے گا : 1۔ اس دن اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی کلام نہیں کرسکے گا۔ (ھود :105) 2۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہ کرسکے گا۔ ( البقرۃ:255) 3۔ قیامت کے دن اس کی اجازت کے بغیر کوئی کلام نہیں کرسکے گا۔ (النباء :38)