وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور (دیکھو) تم کہیں سے بھی نکلو (اور کسی مقام میں بھی ہو) لیک چاہیے کہ (نماز میں اپنا رخ مسجد حرام ہی کی طرف پھیر لو اور (اے پیروان دعوت قرآنی) تم بھی اپنا رخ اسی طرف کو کرلیا کرو۔ خواہ کسی جگہ اور کسی سمت میں ہو۔ اور یہ (جو تقرر قبلہ پر اس قدر زور دیا گیا ہے تو یہ) اس لیے ہے تاکہ تمہارے خلاف لوگوں کے پاس کوئی دلیل باقی نہ رہے (اور یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ معبد ابراہیمی ہی تمہارا قبلہ ہے) البتہ جو لوگ حق سے گزر چکے ہیں (ان کی مخالفت ہر حال میں جاری رہے گی) تو ان سے نہ ڈرو۔ مجھ سے ڈرو۔ اور علاوہ بریں یہ (حکم) اس لیے بھی (دیا گیا) ہے کہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کردوں۔ نیز اس لیے کہ (سعی و عمل کی) سیدھی راہ پر تم لگ جاؤ
فہم القرآن: ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : پہلے بھی بیان ہوا ہے کہ تحویل قبلہ معمولی اقدام نہیں تھا۔ اس لیے رسول کریم {ﷺ}کو تیسری مرتبہ اور صحابہ {رض}کو دوسری بار مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم نماز کے وقت جہاں کہیں ہوبہر حال اپنے چہروں کو مسجد حرام کی طرف پھیرلو۔ قرآن مجید میں صرف یہی ایسا مسئلہ ہے جس پر عمل درآمد کروانے کے لیے آپ کو تین بار حکم دیا گیا ہے۔ اس تاکید کے باوجود فرمان کے آخر میں مزید حکم دیا ہے کہ لوگوں سے ڈرنے کے بجائے صرف مجھ سے ڈرو۔ کیونکہ آدمی جب اللہ کا ڈر اپنے آپ میں پید اکرلیتا ہے تو پھر کسی کا خوف اس پر غلبہ نہیں پاسکتا۔ قبول حق اور اس کے ابلاغ کے لیے یہ بات شرط اول کی حیثیت رکھتی ہے کہ انسان صرف اپنے رب سے ڈرتا رہے۔ مسائل : 1۔ اللہ ہی سے ڈرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ سے ڈرنے کی وجہ سے نعمتوں کا اتمام اور ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم اور اس کا صلہ : 1۔ لوگ اللہ سے ڈرنے کے بجائے لوگوں سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ (النساء :77) 2۔ اللہ سے خلوت میں ڈرنے والے کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔ (یٰس :11) 3۔ لوگوں سے ڈرنے کے بجائے اللہ سے ہی ڈرنا چاہیے۔ (آل عمران :175)