سورة ھود - آیت 91

قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا ۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لوگوں نے کہا اے شعیب ! تم جو کچھ کہتے ہو اس میں سے اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم ہم لوگوں میں ایک کمزور آدمی ہو، (اگر (تمہارے ساتھ) تمہاری برادری کے آدمی نہ ہوتے تو ہم ضرور تمہیں سنگ سار کردیتے، تمہاری ہمارے سامنے کوئی ہستی نہیں۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 91 سے 92) ربط کلام : قوم اور حضرت شعیب کے آپس میں سوال و جواب۔ توبہ استغفار کرنے کی بجائے قوم کے نمائندے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہنے لگے۔ اے شعیب تیری اکثر باتیں ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں۔ آپ ہر روز ہمیں روکتے ٹوکتے ہیں۔ ہم آپ سے نمٹ لیتے اگر آپ کی برادری مضبوط نہ ہوتی ورنہ تیری تو ہم میں کوئی حیثیت نہیں۔ ہم تجھے اپنے میں نہایت کمزور سمجھتے ہیں۔ تو کسی طرح بھی ہم پر غالب نہیں آسکتا۔ حضرت نے اپنی قوم کو جواب دیتے ہوئے فرمایا۔ کیا تمہارے لیے میری برادری اللہ سے زیادہ طاقتور ہے؟ جس اللہ کو تم نے میری برادری کے مقابلے میں پس پشت ڈال رکھا ہے۔ اگر تم باز نہیں آئے تو تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔ عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور کس پر ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوتا ہے۔ یقین جانو کہ میرا رب تمہاری تمام حرکات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس فرمان میں یہ کھلا اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے غلط فائدہ نہ اٹھاؤ اور نہ یہ سمجھو تم اس کے احاطہ قدرت سے باہر ہو۔ یہ تو اس کا اصول ہے کہ وہ ظالموں کو ایک مدت معینہ تک مہلت دیتا ہے۔ تاکہ انہیں گناہ کرنے میں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا پرست لوگوں کی ہمیشہ سے یہ سوچ رہی ہے کہ وہ رب ذوالجلال سے ڈرنے کی بجائے دنیا کے نقصان اور لوگوں کی طاقت سے ڈرتے ہیں۔ ورنہ کتنے لوگ ہیں جو حقیقت سمجھ جاتے ہیں۔ مگر منفی رائے عامہ کے خوف سے اسے قبول نہیں کرتے۔ اس خوف کو دور کرنے کے لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ بددیانتی چھوڑ کر دیانت اختیار کرو اور شرک سے اجتناب کرتے ہوئے توحید خالص کا عقیدہ اختیار کرو۔ میری برادری سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ لوگوں سے ڈرنے کی بجائے اللہ سے ڈرنا چاہیے : ﴿فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِی وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِی عَلَیْکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ [ البقرۃ:150] ” تم ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا تاکہ تم پر اپنی نعمتوں کو پورا کروں اور تم راہ راست پر چلو۔“ مسائل : 1۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے انہیں کمزور جانا۔ 2۔ کافر دنیا والوں کا لحاظ کرتے ہیں عرش والے کا نہیں۔ 3۔ انبیاء (علیہ السلام) کی دنیاوی وسائل پر نہیں اللہ پر نظر ہوتی ہے۔ 4۔ کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں۔ تفسیر بالقرآن : ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت میں ہے : 1۔ بے شک میرا پروردگار جو تم عمل کرتے ہو اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (ھود :92) 2۔ ہر چیز اللہ کے احاطہ علم میں ہے۔ (الطلاق :12) 3۔ ہمارے رب نے علم کے ذریعے ہر چیز کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ (الاعراف :89) 4۔ بے شک اللہ لوگوں کے اعمال کا احاطہ کرنے والا ہے۔ (آل عمران :120) 5۔ یقیناً اللہ ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔ (حٰم السجدۃ:54) 6۔ اللہ ہر چیزکا احاطہ کرنے والا ہے۔ (النساء :126)