قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ
لوگوں نے کہا اے شیعب ! کیا تیری یہ نمازیں (جو تو اپنے خدا کے لیے پڑھتا ہے) تجھے یہ حکم دیتی ہیں کہ ہمیں آکر کہے : ان معبودوں کو چھوڑ دو جنہیں تمہارے باپ دادا پوجتے رہے ہیں، یا یہ کہ تمہیں اختیار نہیں کہ اپنے مال میں جس طرح کا تصرف کرنا چاہو کرو،؟ بس تم ہی ایک نرم دل اور راست باز آدمی رہ گئے ہو۔
فہم القرآن : (آیت 87 سے 88) ربط کلام : حضرت شعیب (علیہ السلام) کو قوم کا جواب۔ مشرکوں اور سچائی کے منکروں کا شروع سے یہ رویہ رہا ہے کہ وہ توحید کو قبول اور حق کو تسلیم کرنے کی بجائے عقیدہ توحید اور حق کے جواب میں نہ صرف انبیاء اور مصلحین پر مختلف قسم کے الزامات لگاتے ہیں بلکہ وہ انبیاء اور مصلحین کے نیک کاموں کو طعنہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے بھی یہ روّیہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اے شعیب کیا تیری نمازیں تجھے یہی سبق سکھاتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقہ عبادت اور ان کے طرز زندگی کو چھوڑ دیں اور تیری وجہ سے ہم اپنا کاروبار اپنی مرضی اور طریقہ کے مطابق نہ کریں۔ یہ باتیں تجھے زیب نہیں دیتیں کیونکہ ہم تجھے بردبار اور نیک سمجھتے ہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے قوم! کیا آپ غور نہیں کرتے کہ میں جن کاموں سے تمہیں روکتا ہوں ان سے روکنے کا حکم اور دلائل میرے رب نے مجھے عطا فرمائے ہیں۔ کا مقصد یہ ہے کہ میں تمہیں ان برائیوں سے منع کروں۔ پھر تم یہ بھی غور کرو کہ مجھے تمہارے کاروبار کے ساتھ کوئی حسد اور رشک نہیں۔ کیونکہ میرے رب نے مجھے فراوانی کے ساتھ رزق حلال دے رکھا ہے۔ میں تمہیں کسی کاروباری رقابت یا ذاتی مفاد کی خاطر ان کاموں سے نہیں روکتا۔ بلکہ میرا مقصد تو اپنی ہمت کے مطابق اور محض اللہ کی توفیق سے تمہاری اصلاح کرنا ہے۔ اس کام کے ردّعمل پر میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں اور ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرنے والا ہوں۔ قوم شعیب کا آپ کو نمازوں کا طعنہ دینا اور آپ کی تعریف کرنا اس لیے تھا کہ ایک شریف آدمی کو دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے اور اسے عبادات کو اپنی ذات کی حد تک رکھنا چاہیے۔ یہی وہ غلط فہمی اور پراپیگنڈہ ہے جو جرائم پیشہ لوگ ابتدا ہی سے کرتے آرہے ہیں۔ کہ جب بھی انہیں سمجھایا جائے تو وہ سمجھانے والے کے اچھے کاموں کا اسے طعنہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دین کو کاروبار اور سیاست میں دخل انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح تو دینوی اور سیاسی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ گویا کہ ان کے نزدیک دین ان کی ترقی میں حائل ہوتا ہے۔ جس بناء پر بالآخر حکمران سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جس کے پردے میں مادر پدر آزاد ہونے کے سوا کوئی بات نہیں ہوتی۔ رزقًا حسنًا : الحسنۃ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو انتہائی خوبصورت ہو اور اس کی طرف انسان کا دل مائل ہوجائے یہ دنیا کی کوئی بھی نعمت ہو سکتی ہے اور یہ لفظ نیکی اور خیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ نیکی سے بڑھ کر نیک آدمی کو کوئی چیز مرغوب نہیں ہوتی۔ قوم کے طعنے کے جواب میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کے جواب میں نہایت حکیمانہ طریقے سے چھ باتیں ارشاد فرمائیں جوہر مبلغ کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ 1۔ میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہوں۔ 2۔ میرے رب نے مجھے بہترین رزق عنایت فرمایا ہے۔ 3۔ میں مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر تمہیں برائی سے منع نہیں کرتا۔ 4۔ میرا مقصد اپنی ہمت کے مطابق تمہاری اصلاح کرنا ہے۔ 5۔ میں ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ کرتا ہوں۔ 6۔ میں ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ مسائل :1۔ بدکار لوگ نیکو کاروں کو نیکیوں کا طعنہ دیتے ہیں۔ 2۔ برے لوگ نیک لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کو دلائل عطا فرماتا ہے۔ 4۔ اللہ ہی رزق عطا فرمانے والاہے۔ 5۔ اپنی ہمت کے مطابق لوگوں کی اصلاح کرتے رہنا چاہیے۔ 6۔ نیکی کی توفیق اللہ کی طرف سے ملتی ہے۔ 7۔ انسان کو اللہ پر توکل اور اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن :مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے : 1۔ میں اللہ پر توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (ھود :88) 2۔ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق :3) 3۔ مومن کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (آل عمران :122) 4۔ ایمان والے اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (الشوریٰ:36) 5۔ آپ کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ (الاحزاب :18)