وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور (دیکھو ہر گروہ کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ (عبادت کے وقت) رخ پھیر لیتا ہے۔ (پس یہ کوئی ایس بات نہیں جسے حق و باطل کا معیار سمجھ لیا جائے۔ اصلی چیز جو مقصود ہے وہ تو نیک عملی ہے) پس نیکیوں کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرو۔ تم جہاں کہیں بھی ہو (یعنی جس جگہ اور جس سمت میں بھی خدا کی عبادت کرو) خدا تم سب کو پا لے گا۔ یقیناً اس کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں
فہم القرآن : (آیت 148 سے 149) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ ہر مذہب کے لوگوں نے عبادت کے لیے ایک جہت مقرر کر رکھی ہے۔ وہ اسی طرف ہی راغب اور رخ کیے ہوئے ہیں۔ ہندو اپنے عبادت خانوں میں مورتی (بت) کی طرف اور اگر مورتی یعنی بت نہ ہو تو سورج کی طرف منہ کرتے ہیں۔ سکھ اپنی کتاب گرنتھ کی جانب منہ کرتے ہیں۔ کتاب موجود نہ ہونے کی صورت میں جس طرف چاہیں چہرہ کرلیتے ہیں۔ بدھ مت بدھا کی مورتی کی طرف، یہودی بیت المقدس میں بھی دیوار گریہ کی طرف اور عیسائی مسجد اقصیٰ کی اس جانب منہ کرتے ہیں جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) نے جنم لیا تھا۔ یہ تو مسلمانوں کا امتیاز ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں بیت اللہ کی طرف منہ کرتے ہیں۔ اس لیے ارشاد ہورہا ہے کہ تمہارے رب نے تمہارے چہروں کو اپنے گھر کی طرف پھیرنے کا حکم دیا ہے بس تم اسے قبول کرنے میں سبقت حاصل کرو۔ کیونکہ کا رِ خیر میں سبقت اختیار کرنے سے ایک ولولۂ تازہ پیدا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ امّتِ مسلمہ کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا ارشاد ہوا ہے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی شعبہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا صحت مند رجحان پیدا نہ ہو۔ سبقت کے جذبہ کے بغیر قوموں کی زندگی میں مردگی پیدا ہوجاتی ہے۔ بالآخر زندگی مردہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ زندہ اور بیدار قومیں اسی لیے مختلف شعبوں میں مقابلے کروا یا کرتی ہیں۔ قرآن مجید نے جذبۂ مسابقت کو پروان چڑھانے کے لیے ” سَابِقُوْا اور سارِعُوْا“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ نیکیوں میں سب سے بڑی نیکی نماز ہے‘ جس کے بارے میں رسول اللہ {ﷺ}سے پوچھا گیا : (أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ) ” کونسا عمل اللہ کے ہاں زیادہ پسندیدہ ہے ؟“ آپ {ﷺ}نے فرمایا : اَلصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِھَا :” وقت پر نماز ادا کرنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوۃ] یہاں ہر قسم کی نیکی میں سبقت اور سورۃ الحدید آیت 21میں مغفرت اور جنت کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے۔ جب کہ سورۃ آل عمران : آیت 123میں رب تعالیٰ کی مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے تیزروی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر سورۃ الواقعہ : آیت ١٠ تا ١٢ میں اس کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہی قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ جس طرح آج تمہیں اللہ تعالیٰ کے گھر کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، قیامت کے روز تمہیں اسی گھر کے مالک کے حضور پیش ہونے کا حکم ہوگا اور تم سب کے سب اس کی بارگاہ میں سر جھکائے حاضر ہوگے۔ اب تو تبدیلی قبلہ کا حکم آنے کے باوجود لوگ مختلف سمتوں کی طرف چہرے کیے ہوئے ہیں لیکن وہاں ہر حال میں سب کو ایک ہی بار گاہ اور ایک ہی عدالت میں جمع ہونا ہوگا۔ بلا شک اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہارے اعمال کو اپنے حضور پیش کرنے پر قادر ہے کیونکہ وہ قطرے قطرے، پتّے پتّے اور ذرّے ذرّے پر قدرت رکھتا ہے۔ تحویل قبلہ کا حکم آتے ہی صحابۂ کرام {رض}نے سمع واطاعت کا وہ نمونہ پیش کیا کہ جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر {رض}فرماتے ہیں کہ لوگ مسجد قبا میں صبح کی نماز ادا کررہے تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی نے آکرکہاکہ نبی {ﷺ}پر آج رات قرآن نازل ہوا۔ اس میں حکم دیا گیا ہے کہ وہ کعبہ کی طرف منہ کریں لہٰذا تمہیں بھی کعبہ کی طرف رخ کرنا چاہیے۔ لوگوں کے چہرے شام کی طرف تھے۔ اسی وقت انہوں نے اپنے چہروں کو کعبہ کی طرف پھیرلیا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی القبلۃ .....] مسائل : 1۔ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ 2۔ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پاس جمع کرلے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ذرّے ذرّے اور چپّے چپّے پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہر امت کا قبلہ : 1۔ نبی {ﷺ}کو بھی قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہے۔ (البقرۃ:149) 2۔ ہر امّت نے اپنے لیے ایک جہت مقرر کرلی ہے۔ (البقرۃ :148) 3۔ آدمی مسجد حرام میں ہو یا باہر اسے حالت نماز میں قبلہ کی طرف ہی منہ کرنا چاہیے۔ (البقرۃ:144)