يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَا ۖ إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ ۖ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ
(ہمارے فرستادوں نے کہا) اے ابراہیم ! اب اس بات کا خیال چھوڑ دے، تیرے پروردگار کی (ٹھہرائی ہوئی) بات جو تھی وہ آ پہنچی اور ان لوگوں پر عذاب آرہا ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا۔
فہم القرآن : (آیت 76 سے 78) ربط کلام : ملائکہ کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے فارغ ہونے کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضری۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ کی زبان سے بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سن چکے۔ تو پھر قوم لوط کے بارے میں ملائکہ سے تکرار کرنے لگے۔ جس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ مجرموں کے حمایتی تھے۔ بلکہ وہ اس وجہ سے قوم لوط کے بارے میں تکرار کر رہے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہایت حوصلہ مند، دوسرے کی تکلیف دیکھ کر تڑپ جانے والے اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ جس بناء پر وہ ملائکہ سے تکرار کرنے لگے کہ آپ انہیں کچھ اور مہلت دیں۔ شاید وہ سنبھل جائیں۔ حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ آپ اس قوم کو عذاب کرنے چلے ہیں جن میں لوط بھی موجود ہیں۔ ملائکہ نے اس کا جواب دیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ان میں لوط موجود ہیں۔ لیکن ان کی بیوی کے سوا لوط اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو بچالیاجائے گا۔ (العنکبوت :32) نہ معلوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کن الفاظ اور کس، کس انداز میں ملائکہ سے تکرار کرتے ہوں گے۔ لیکن بالآخر ملائکہ نے کہا کہ حضرت جانے دیجیے اب یہ عذاب ٹلنے والا نہیں۔ تب ملائکہ ان سے رخصت ہو کر حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچے۔ مفسرین نے اسرائیلی روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملائکہ انتہائی خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے۔ ملائکہ کی آمد پر حضرت لوط (علیہ السلام) نے ناگواری محسوس کی اپنی قوم کا کردار جانتے ہوئے اور دل ہی دل میں پریشان ہونے لگے۔ اس حالت میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے کہ آج تو بڑا مصیبت کا دن ہے۔ مہمانوں کی اطلاع پاکر ان کی قوم کے لوگ ان کے ہاں دوڑتے ہوئے آئے۔ کیونکہ وہ پہلے سے ہی بدکاری کے عادی تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں شرم دلانے کے لیے فرمایا یہ میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھے ذلیل نہ کرو۔ جب اوباش بے حیائی کی باتیں اور بدمستی دکھانے لگے تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے پھر شرم دلائی کہ کیا تم میں سے کوئی ایک بھی شریف آدمی نہیں ہے؟ بے شرم جواب دیتے ہیں۔ تو جانتا ہے کہ ہمیں تیری بیٹیوں کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ تو یہ جانتا ہے کہ ہم کس ارادے سے آئے ہیں۔ یہاں ﴿یُھْرَعُوْنَ اِلَیْہِ﴾ کے لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ جس کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ جب اوباش لوگ دوڑتے ہوئے لوط (علیہ السلام) کے گھر کے سامنے پہنچے تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنے گھر کے کواڑ بند کرلیے لیکن وہ دیواریں پھلانگتے ہوئے اندر آگھسے۔ جس پر لوط (علیہ السلام) نے انہیں بار بار شرم دلائی مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا یہ فرمان کہ میری بیٹیاں تمہارے لیے حاضر ہیں۔ اس کا یہ معنیٰ نہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو اپنی بیٹیوں کے ساتھ بدکاری کی دعوت دی تھی۔ وہ ہرگزایسی بات نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ پیغمبر سب سے زیادہ غیرت والا اور سب سے بڑھ کر صاحب حوصلہ ہوتا ہے۔ پیغمبر نازک سے نازک ترین حالات میں بھی اپنی غیرت اور حیاء کے خلاف بات نہیں کرسکتا۔ ان کے فرمان کے مفسرین نے دو معنی لیے ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارے گھروں میں جو تمہاری بیویاں ہیں۔ وہ تمہارے لیے حلال ہیں کیونکہ پیغمبر امت کا روحانی باپ ہوتا ہے اس لیے قوم کی بیٹیاں حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیٹیاں تھیں۔ دوسرا ان کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ نکاح کے لیے میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ جن کے ساتھ تعلقات قائم کرنا تمہارے لیے فطری اور حلال طریقہ ہوگا۔ لیکن بدمعاش کسی طرح بھی سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ لواطت کی سزا : ( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (ﷺ) مَنْ وَجَدْتُمُوْہُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ فَاقْتُلُوْا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُوْلَ بِہِ )[ رواہ ابو داؤد : باب فیمن عمل عمل قوم لوط] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جسے قوم لوط والا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کوئی نہیں روک سکتا۔ 2۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو فرشتوں کے متعلق علم نہیں تھا۔ 3۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پرلے درجے کی بدکار تھی۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو تباہ و برباد کردیا : 1۔ تمہارے پروردگار کا حکم آچکا اور ان پر نہ ٹلنے والا عذاب آنے والا ہے۔ (ھود :76) 2۔ ہم نے تم سے پہلے بستیوں والوں کو ہلاک کیا جب انہوں نے ظلم کیا۔ (یونس :13) 3۔ کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کیں اور وہ ظلم کرنے والی تھیں۔ (الحج :45) 4۔ اللہ نے انبیاء کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے۔ (ابراہیم :13) 5۔ اللہ ظالم لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ (الانعام :47) 6۔ نہیں ہم نے ہلاک کیں بستیاں مگر ان کے رہنے والے ظالم تھے۔ (القصص :59)