وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ
اور اس کی بیوی (سارہ) بھی (خیمہ میں) کھڑی (سن رہی) تھی، وہ ہنس پڑی (یعنی اندیشہ کے دور ہوجانے سے خوش ہوگئی) پس ہم نے اسے (اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے) اسحاق (کے پیدا ہونے) کی خوشخبری دی اور اس کی کہ اسحاق کے بعد یعقوب کا ظہور ہوگا۔
فہم القرآن : (آیت 71 سے 75) ربط کلام : ملائکہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہونے کا مقصد بیان کرتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ مکرمہ اس موقعہ پر کھڑی ملائکہ کی گفتگو سن رہی تھیں۔ کچھ مفسرین نے ان کے اس طرح کھڑے ہونے کے بارے میں قیل وقال کی ہے۔ حالانکہ قریب کھڑے ہونے کا یہ معنی نہیں لیا جاسکتا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ مکرمہ جن کا اسم گرامی حضرت سارہ ہے کہ وہ بے پردہ اس مجلس میں آکھڑی ہو۔ کیا عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں مہمانوں کو کھانا پیش کرنے کے وقت باپردہ حاضر نہیں ہوسکتی؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ پردے کے پیچھے کھڑی ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کھانا پکڑا رہی ہوں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں کو کھانا پیش کرنے کی خدمت سرانجام دے دیتے ہوں؟ بہرکیف قریب کھڑی ہوئی حضرت سارہ کو ملائکہ نے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا اور پوتا عنایت فرمائے گا۔ بیٹے کا نام اسحق اور پوتے کا نام یعقوب رکھا ہے۔ یہاں ملائکہ نے خوشخبری حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو براہ راست پیش کرنے کی بجائے ان کی زوجہ مکرمہ کو اس لیے دی کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں حضرت ھاجرہ سے حضرت اسمٰعیل موجود تھے۔ حضرت سارہ ابراہیم (علیہ السلام) کی پہلی بیوی تھیں۔ جو ان کی چچا زاد تھیں اور یہ اسی (80) سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود اولاد سے محروم تھیں۔ جس بناء پر انہیں براہ راست بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سنائی گئی۔ خوشخبری سنتے ہی بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا کہ آہ آہ یہ کیسے ہوگا؟ جبکہ میں بانجھ اور میرے خاوند ابراہیم انتہائی بوڑھے ہوچکے ہیں۔ اس حالت میں یہ خوشخبری انوکھی معلوم ہوتی ہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر (120) سال کے قریب تھی۔ حضرت سارہ کی حیرانگی اور تعجب دیکھ کر ملائکہ نے انہیں کہا کیا آپ اللہ کے حکم اور اس کی رحمت کے بارے میں تعجب کرتی ہیں۔ حالانکہ آپ کے گھرانے پر اللہ کی بے پناہ رحمتیں نازل ہو رہی ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے تعریف والا اور بڑا ہے۔ یہ بات فہم القرآن کی جلد اول اور جلد دوم میں بیان ہوچکی ہے کہ ہر آیت کے اختتامی الفاظ اس کے مرکزی مفہوم کے کسی نہ کسی انداز میں ترجمان ہوتے ہیں۔ ملائکہ نے اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کا ذکر فرما کر انہیں مزید تسلی دی کہ بے شک آپ کی اور ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر زیادہ ہوچکی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے سامنے کوئی کام بھی مشکل اور بڑا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ حمد و ستائش کے لائق ہے لہٰذا تمہیں تعجب کرنے کی بجائے اس کی حمد اور شکر ادا کرنا چاہیے۔ ٭حمید کا معنی : قابل تعریف، قابل ستائش، مستحسن، پسندیدہ۔ ٭مجید کا معنی : جلیل القدر، نمایاں، شاندار، معروف، محمود، قابل تعریف، عالی شان۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان پر اللہ کی رحمت کی چند جھلکیاں : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے اللہ تعالیٰ نے آگ کو گلزار بنا دیا۔ 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا دوست قرار دیا۔ 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے اہل خانہ کو بڑے وقار اور سلامتی کے ساتھ کفار کی سرزمین سے نجات دی۔ 4۔ راستہ میں جب حضرت سارہ پر ایک ظالم حکمران نے دست درازی کی کوشش کی تو ظالم کو زمین پر گرا دیا گیا۔ 5۔ حضرت سارہ نہ صرف بحفاظت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس واپس آئی بلکہ انہیں حضرت ہاجرہ کی شکل میں کنیز بھی دی گئی۔ 6۔ حضرت سارہ کو بیک وقت بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دی گئی۔ 7۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو رہتی دنیا تک سب کا امام بنایا گیا۔ 8۔ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی یاد گاروں کو اللہ تعالیٰ نے شعائر اللہ قرار دیا۔ 9۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بنائے ہوئے بیت اللہ کی زیارت لوگوں پر فرض قرار دی گئی۔ 10۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قربانی کو ہمیشہ کے لیے ہر امت کے لیے سنت قرار دیا گیا۔ علیٰ ھذہٖ القیاس۔ ملائکہ سے تکرار کرنے کا ذکر کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے اس تکرار کو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ کیونکہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور اسی کے حکم کی تعمیل کے لیے قوم لوط کی طرف جانے والے تھے۔ پھر تکرار کی بجائے جھگڑے کا لفظ استعمال فرمایا جس میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ پیار کی جھلک دکھائی دیتی۔ کیونکہ جھگڑے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کرنے کی بجائے ان کی تعریف فرمائی گئی۔ 1۔﴿حَلِیْمٌ﴾ (خوش، غم اور غصہ میں حوصلہ رکھنے والا، اللہ کے حضور آہ زاری کرنے والا) 2۔ ﴿اَوَّاہٌ﴾ (انتہائی خیر خواہ اور دوسرے کی تکلیف دیکھ کر تڑپ جانے والا) 3۔﴿ مُنِیْبٌ﴾ (غمی و خوشی اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا) مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ جب اور جسے چاہتا ہے اولاد عطا فرماتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے اہل پر رحمت و برکت نازل فرمائی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ تعریف کے لائق ہے۔ 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بڑے حلیم اور نرم دل تھے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ تعریف والا اور بزرگی والا ہے : 1۔ بے شک اللہ تعریف کے لائق اور بڑی شان والا ہے۔ (ھود :73) 2۔ زمین و آسمان میں سبھی کچھ اللہ کا ہے اور اللہ ہر تعریف کے لائق ہے۔ (النساء :131) 3۔ اللہ قرآن مجید نازل کرنے والا حکمت والا اور تعریف کے لائق ہے۔ (حم السجدۃ:42) 4۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (الحشر :1) 5۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو جہانوں کو پالنے والا ہے۔ (الفاتحۃ:1)