وَيَا قَوْمِ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ
اور اے میری قوم کے لوگو ! دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی (یعنی اس کے نام پر چھوڑی ہوئی اونٹنی) تمہارے لیے ایک (فیصلہ کن) نشانی ہے، پس اسے چھوڑ دو، اللہ کی زمین میں چرتی رہے، اسے کسی طرح کی اذیت نہ پہنچانا، ورنہ فورا عذاب آ پکڑے گا۔
فہم القرآن : (آیت 64 سے 65) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے شاندار ماضی، عمر بھر کی صداقت اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ دلائل پر ایمان لانے کی بجائے یہ مطالبہ کرڈالا۔ صالح ہم اس وقت تک تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمارے سامنے اس پہاڑ سے ایک گابھن اونٹنی ظاہر نہ ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ معجزہ طلب کرنے کے بعد اگر تم ایمان نہ لائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں مہلت نہ دی جائے گی۔ لیکن ان کی قوم نے صاف طور پر کہا کہ جس پر تم ایمان رکھتے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔ (النحل :49)۔ تب حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ باری تعالیٰ ان کا یہ مطالبہ پورا فرما شاید یہ لوگ ایمان لے آئیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور مطالبہ کرنے والوں کے سامنے پہاڑ سے ایک گابھن اونٹنی بلبلاتے ہوئے باہر نکلی۔ کچھ مدت کے بعد اس نے ایک بچہ جنم دیا۔ یہ تفصیلات مختلف ذرائع سے مفسرین نے جمع کی ہیں۔ جبکہ قرآن مجید سے فقط اتنا ثابت ہے کہ جب پہاڑ سے اونٹنی برآمد ہوئی تو حضرت صالح نے اپنی قوم کو فرمایا یہ اللہ کی اونٹنی ہے۔ جو معجزہ کے طور پر تمہارے سامنے لائی گئی ہے۔ جسے آپ نے ناقۃ اللہ قرار دیا‘ حضرت صالح کا اس اونٹنی کو ناقۃ اللّٰہ قرار دینا دو وجہ سے تھا۔ ایک تو قوم کے مطالبہ پر معجزہ کے طور پر پہاڑ کو دو ٹکڑے کرتے ہوئے نکلی تھی۔ دوسری وجہ ناقۃ اللّٰہ قرار دینے کی یہ تھی کہ وہ اونٹنی رنگ روپ، قدو قامت کے اعتبار سے عام اونٹنیوں سے بالکل ہی مختلف تھی۔ اس کا کھانا پینا بھی غیر معمولی تھا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ کئی اونٹنیوں کے برابر اکیلی پانی پیتی اور منوں کے حساب سے چارہ ہڑپ کر جاتی۔ اونٹنی کے ظاہر ہونے پر حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ اللہ کی اونٹنی کو اللہ کی زمین پر چلنے پھرنے اور کھانے پینے میں رکاوٹ نہ بننا اور نہ ہی اسے کسی قسم کی تکلیف دینا ورنہ تمہیں اللہ کا عذاب دبوچ لے گا۔ کیونکہ یہ اللہ کی اونٹنی ہے۔ بستی کے کنویں سے ایک دن تمہارے جانور پانی پئیں گے اور ایک دن یہ اونٹنی اکیلی پیا کرے گی۔ اسے تکلیف نہ دینا ورنہ تم پر عظیم عذاب آئے گا۔ (الشعراء : 155۔156) لیکن منہ مانگا معجزہ پانے کے باوجود کچھ لوگوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد اس اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں اور مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اونٹنی چیختی چلاتی ہوئی اپنے بچے کے ساتھ اسی پہاڑ میں داخل ہوگئی۔ اس واقعہ کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا کہ بس تین دن تک اپنے گھروں میں رہو۔ چوتھے دن تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اب بھی قوم حضرت صالح (علیہ السلام) سے معذرت کرتے ہوئے درخواست کرتی کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی جائے کہ وہ ان کے سنگین جرم کو معاف کردے۔ لیکن بدبخت قوم کہنے لگی کہ اے صالح ! تو جس عذاب سے ہمیں ڈراتا ہے اسے جلدی لے آؤ۔ ( الاعراف :77) مسائل : 1۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اونٹنی معجزہ کے طور پر عطا فرمائی تھی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو پامال کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ تفسیر بالقرآن : مجرموں کا عذاب کا مطالبہ کرنا : 1۔ حضرت نوح کی قوم نے ان سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (ھود :32) 2۔ قوم ثمود نے حضرت صالح کو عذاب لانے کا چیلنج دیا۔ (الاعراف :77) 3۔ مدین والوں نے حضرت شعیب سے عذاب الٰہی کا مطالبہ کیا۔ (الشعراء :187) 4۔ قوم عاد نے حضرت ھود سے عذاب کے نزول کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف :22) 5۔ کفار نے نبی کریم سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (بنی اسرائیل :92) 6۔ اہل مکہ نے اللہ تعالیٰ سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ ( الانفال :31)