مِن دُونِهِ ۖ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنظِرُونِ
تم سب ملکر میرے خلاف جو کچھ تدبیریں کرسکتے ہو ضرور کرو اور مجھے (ذرا بھی) مہلت نہ دو (پھر دیکھ لو، نتیجہ کیا نکلتا ہے؟)
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت ھود (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے خطاب جاری ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے نہ معلوم کتنی مدت تک قوم کو سمجھایا ہوگا۔ لیکن قوم نے ان کی دعوت کو نہصرف کوئی حیثیت نہ دی تھی بلکہ کہنے لگے کہ تیری بہکی بہکی باتیں کرنے کا سبب یہ ہے کہ ہمارے مدفون بزرگوں کی تم پر مار پڑی ہے لہٰذا ہمیں سمجھائے یا نہ سمجھاۓ ہم تجھ پر ہرگز ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس پر حضرت ھود (علیہ السلام) نے انہیں یہ چیلنج دیا کہ تم سب مل کر میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرلو۔ میرا تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کیونکہ میرا بھروسہ اس ذات پر ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ وہ اتنا بااختیار اور طاقتور ہے کہ ہر جاندار کی پیشانی اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور میرا رب صراط مستقیم پر ہے۔ یعنی اس کا ہر حکم اور فیصلہ ہر اعتبار سے صحیح اور عدل پر قائم ہوتا ہے۔ اس میں کسی قسم کی بے انصافی اور ٹیڑھا پن نہیں ہوتا۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے یہاں اللہ کی دو صفات کا ذکر کیا ہے۔ 1۔ ” اللہ“ میرا اور تمہارا رب ہے۔ (رب کا معنی : پیدا کرنے والا، روزی دینے والا، مالک، سردار، نگران، منتظم ) 2۔ اتنا طاقتور ہے کہ ہر جاندار کی پیشانی اس کے قبضہ میں ہے۔ یہ ہر زبان میں محاورہ بھی ہے اور ایک حقیقت بھی۔ جب کسی کی طاقت کا اعتراف اور اپنی وفاداری جتلانا مقصود ہو تو آدمی کہتا ہے کہ میرے سر کے بال تیرے ہاتھ میں ہیں۔ میری پیشانی تیرے سامنے جھکی ہوئی ہے یعنی میں تیرا غلام مہمل ہوں۔ دوسرا ان کے فرمان کا مقصد یہ ہوسکتا ہے۔ کہ ہر کسی کی جان اللہ کے اختیار میں ہے۔ کیوں کہ مرتے وقت آدمی کی جان اس کے چہرے کی جانب سے نکلتی ہے۔ اس لیے انہوں نے پیشانی کا نام لیا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوتی : 1۔ اللہ کے علاوہ تم سارے میرے ساتھ تدابیر کرلو اور مجھے مہلت نہ دو۔ (ھود :55) 2۔ کہہ دیجیے! تم اپنے شرکاء کو بلالو اور پھر تدابیر کرلو اور مجھ مہلت نہ دو۔ (الاعراف :195) 3۔ اللہ کفار کی تدابیر کو ناکام و نامراد کرنے والا ہے۔ (الانفال :18) 4۔ انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ تدبیر کی۔ اللہ نے انہیں خائب و خاسر کردیا۔ (الانبیاء :70)