تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
(اے پیغمبر) یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے وحی کے ذریعہ سے تجھے بتلا رہے ہیں، اس سے پہلے نہ تو یہ باتیں تو جانتا تھا نہ تیری قوم، پس صبر کر (اور منکروں کے جہل و شرارت سے دلگیر نہ ہو) انجام کار متقیوں ہی کے لیے ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے ذکر کے بعد نبی کریم (ﷺ) کو تکالیف پر صبر کرنے کا حکم۔ قرآن مجید مختلف الفاظ اور انداز میں موقع بہ موقع یہ وضاحت کرتا ہے کہ رسول کا مقام، حدود کار اور اس کے علم کی کیا حقیقت ہے۔ کفار اور مشرک انبیاء کو الجھانے اور لوگوں کو ورغلانے کے لیے یہ پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ اسے تو فرشتہ ہونا چاہیے تھا یا اس کے پاس خدا کی خدائی میں سے کچھ اختیار ہونے چاہییں تھے۔ اسی بنا پر وہ رسول معظم (ﷺ) سے مطالبہ کرتے کہ آپ کے پاس دنیا کے خزانے ہونے چاہییں۔ ” فرما دیجیے میں اپنے نفع نقصان کا بھی کچھ اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو لوگوں کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے والا ہوں۔ (الاعراف :188) ” فرما دیجئے میں تو اپنے نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے۔ ہر ایک امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے جب وہ آجاتا ہے تو اس میں کمی بیشی نہیں کی جاتی۔“ (یونس :49) کفار اور مشرک رسول معظم (ﷺ) کو الجھانے اور لوگوں کو ورغلانے کے لیے یہ باتیں کیا کرتے تھے۔ جس کی قرآن مجید متعدد مقامات پر نفی کرتا ہے۔ لیکن افسوس آج کے کچھ مسلمان انہی باتوں کو رسول محترم (ﷺ) کی محبت کے دائرہ میں لاکر آپ کے ذمہ لگاتے ہیں کہ آپ (ﷺ) مختار کل تھے۔ یعنی ہر چیز پر اختیار رکھنے والے تھے اور غیب کی باتیں جاننے والے تھے۔ پھر اس کی تقسیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کو ذاتی نہیں عطائی اختیار اور غیب کا علم تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان اطہر سے یہ بات کہلوائی ہے کہ اے نبی (ﷺ) آپ خود اعلان فرمائیں۔” کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔“ (الاعراف :188) جبکہ قرآن مجید بار بار اس بات کی نفی کرتا ہے کہ نبی ہو یا ولی، ملائکہ ہوں یا جنات کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ غیب کا جاننا صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے۔ غیب سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بھی کوئی چیز غیب یا پوشیدہ ہے۔ جب غیب کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد ملائکہ، جنات اور انسان ہوتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ میرے لیے غیب اور ظاہر دونوں برابر ہیں۔ سورۃ الرعد آیت : 10یہاں کھلے الفاظ میں آپ اور آپ کی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے بتلایا جارہا ہے کہ اے رسول! تم اور تمہاری قوم، نوح کے زمانے میں موجود تھے اور نہ ہی تم نے قوم نوح کا براہ راست خوفناک انجام دیکھا۔ یہ تو ہم آپ کے سامنے یہ واقعات بیان کرتے ہیں تاکہ آپ صبرو شکر کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں۔ اگر آپ کے مخالف اپنے عقیدہ اور طرز زندگی سے باز نہ آئے تو ان کا انجام قوم نوح سے مختلف نہیں ہوگا۔ لہٰذا حوصلہ قائم رکھیں اور یاد رکھیں کہ انجام کار متقین کے حق میں ہوگا۔ ضیاء القرآن کے مفسرکا اعتراف : اگرچہ نوح (علیہ السلام) کے نام سے لوگ آگاہ تھے اور ان کے احوال کی بھی کچھ کچھ انہیں خبر تھی۔ لیکن وہ سب وہم و گمان کے تراشیدہ افسانے تھے۔ حقیقت حال سے کوئی واقف نہ تھا۔ اے میرے نبی ! تمہیں بھی ان کے صحیح حالات کا علم نہ تھا اور تیری قوم بھی جاہل اور اَن پڑھ تھی۔ اس غیب کو ہم نے آپ پر بذریعہ وحی کے ذریعہ منکشف فرمایا۔ (ضیاء القرآن، جلد : 2، ص366) مسائل : 1۔ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 2۔ انبیاء (علیہ السلام) کو اسی چیز کا علم ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ وحی کرتا ہے۔ 3۔ مصائب و پریشانی میں صبر کرنا چاہیے۔ 4۔ پرہیزگاروں کا بہتر انجام ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : 1۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ (ھود :49) 2۔ اللہ آسمان و زمین کے غائب کو جانتا ہے۔ (البقرۃ:33) 3۔ اللہ کے پاس ہی غیب کی چابیاں ہیں۔ (الانعام :59) 4۔ نبی کریم غیب نہیں جانتے تھے۔ (الانعام :50) 5۔ اللہ حاضر اور غائب کو جاننے والا ہے۔ (الانعام :73)