وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور (نوح نے ساتھیوں سے) کہا کشتی میں سوار ہوجاؤ اللہ کے نام سے اسے چلنا ہے ورا اللہ ہی کے نام سے ٹھہرنا، بلاشبہ میرا پروردگار بخشنے والا رحمت والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : طوفان نوح کی کیفیت اور اس کی ہولناکیاں، حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ آپ بسم اللّٰہ مجرہاومرسہا پڑھ کرکشتی میں سوار ہوجائیں اس بیڑے کا چلنا اور ٹھہرنا اللہ کے حکم سے ہی ہوگا یقیناً وہ نہایت رحم فرمانے اور معاف کرنے والا ہے۔ دنیا میں یہ پہلا بحری بیڑا تھا۔ چپو اور انجن کے بغیربے انتہا طوفان میں اپنی پوری سلامتی اور خیروبرکت کے ساتھ نا معلوم منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ جس میں اللہ تعالیٰ کا پیغمبر اس کے مومن ساتھی اور جانوروں کے دو، دو جوڑے سوار تھے گویا کہ ایک دنیا بیڑے میں سوار کردی گئی۔ جوں ہی حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھی کشتی میں سوار ہوئے۔ تو یکدم پانی کے ریلے بڑے بڑے پہاڑوں کی شکل اختیار کرگئے۔ یہ ریلے اس قدر طاقتور اور تندوتیز تھے کہ جگہ جگہ پانی کے بھنور بننے لگے اور ہر لمحہ ان میں تلخی اور تیزی پیدا ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ پانی کی موجیں پہاڑوں کی مانند ایک دوسرے سے اوپر اٹھتیں اور ٹکراتیں۔ طوفان کے جوش وخروش سے یوں خوفناک آوازیں بلند ہوئیں کہ لوگوں کے کلیجے دہل گئے اور موجیں پہاڑوں کی بلندیوں سے ٹکرانے لگیں، اس خطرناک اور ہولناک صورت حال میں اللہ کا عظیم پیغمبر اور اس کے مخلص ساتھی اپنے رب کے حضور سرفگندہ ہوئے اس کا شکرادا کرتے ہوئے اس سے رحمت اور بخشش کی دعائیں کر رہے تھے۔ سواری پر سوار ہونے کی دعائیں : ﴿وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْہَا بِسْمِ اللَّہِ مَجْرٖہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُوْرٌ رَحِیْمٌ ﴾[ ھود :41] ” اور نوح نے کہا تم اس کشتی میں سوار ہوجاؤ اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا اللہ کے نام سے ہے یقیناً میرا رب معاف فرمانے اور مہربانی کرنے والا ہے۔“ ﴿وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُبَارَکًا وَأَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ ﴾[ المومنون :29] ” اور کہیے میرے رب مجھے برکت والی جگہ اتارنا اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) کَانَ اِذَا اسْتَوٰی عَلٰی بَعِیْرِہٖ خَارِجًا اِلَی السَّفَرِ کَبَّرَ ثَلٰثًا ثُمَّ قَالَ (سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْأَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ھٰذَاالْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ھٰذَا وَاطْوِعنَا بُعْدَہُ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلیْفَۃُ فِی الْاَھْلِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ وَّعْثَآء السَّفَرِ وَکَآبَّۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوْٓءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالاَھْلِ) وَاِذَا رَجَعَ قَالَ ھُنَّ وَزَادَ فِیْھِنَّ (آئِبُوْنَ تَآئِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَکِبَ إِلَی سَفَرٍ ا لْحَجِّ وَغَیْرِہِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) سفر پر روانہ ہوتے وقت جب اپنے اونٹ پربیٹھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے۔ پھر یہ دعا پڑھتے ” پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے مسخر کردیا۔ حالانکہ ہم اس پر قابو پانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ بارالٰہا! ہم اس سفر میں نیکی، تقویٰ اور ایسے عمل کی آرزو کرتے ہیں جس میں تیری رضا ہو۔ اے ہمارے معبود ! ہمارے اس سفرکو آسان بنا دے۔ اس کی دوری کو سمیٹ دے۔ بارِ الٰہا! تو سفر میں ہمارا ساتھی ہے اور اہل وعیال کی حفاظت فرمانے والا ہے۔ بارِالٰہا! میں سفر کی مشقتوں، غمناک منظر اور اپنے اہل وعیال اور مال میں پریشان حالت میں واپسی سے تیری پناہ مانگتاہوں۔“ جب واپس آتے تو ان کلمات کا اضافہ فرماتے۔” ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے خالق ومالک کی حمدوثنا کے گن گانے والے ہیں۔“ مسائل : 1۔ دعا پڑھ کر سواری پر سوار ہونا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہیکشتیوں کو چلانے اور بچانے والا ہے۔ 3۔ کشتیوں کو ٹھہرانے والی اللہ کی ذات ہے۔ 4۔ اللہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن :سواری پر بیٹھنے کی دعا : 1۔ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے، میرا رب بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (ہود :41) 2۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ( اسے ہمارے) تابع کردیا۔ ہم تو اسے قابو کرنے کے قابل نہ تھے اور ہم نے اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے۔ (الزخرف : 13۔14)