سورة ھود - آیت 40

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(یہ سب کچھ ہوتا رہا) یہاں تک کہ جب وہ وقت آگیا کہ ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات ظہور میں آئے اور (فطرت کے) تنور نے جوش مارا تو ہم نے (نوح کو) حکم دیا ہر قسم (کے جانوروں) کے دو دو جوڑے کشتی میں لے لو اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لو۔ مگر اہل و عیال میں وہ لوگ داخل نہیں جن کے لیے پہلے بات کہی جاچکی ہے (یعنی کہا جاچکا ہے کہ انہیں غرق ہونا ہے) نیز ان لوگوں کو بھی لے لو جو ایمان لا چکے ہیں، اور نوح کے ساتھ ایمان نہیں لائے تھے مگر بہت تھوڑے آدمی۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کی بددعا کے نتیجہ میں بارش کا پانی سیلاب کی صورت میں عذاب کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کشتی تیار کرچکے تو اللہ کے غضب کا آغاز ہوا۔ جس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے زوردار بارش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے۔ جگہ جگہ زمین کو پھاڑ کر چشمے جاری کردیئے یہاں تک کہ زمین اور آسمان کا پانی مل کر طوفان کی شکل اختیار کرگیا۔ ( القمر : 11۔12) اس کے ساتھ ہی اللہ کے حکم کے ساتھ تنور پھٹ گیا التنور کے مفسرین نے کئی معانی کیے ہیں۔ کچھ مفسرین نے صحابہ کرام (رض) کے حوالے سے لکھا کہ التنور سے مرادسطح زمین ہے جو مختلف مقامات سے پھٹی اور جگہ، جگہ چشمے جاری ہوگئے۔ بعض نے لکھا کہ التنورسے مراد اس بستی کا کوئی خاص مقام ہے۔ جس کی پہلے سے حضرت نوح (علیہ السلام) کو نشاندہی کردی گئی تھی کہ جب التنور پھٹ جائے تو اپنے ایماندار ساتھیوں اور ہر جاندار کے دو دو جوڑے کشتی میں بٹھانا شروع کرنا۔ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ التنورسے مراد یہی تنور ہے جس میں روٹیاں پکائی جاتی ہیں ” اللہ اعلم“ ممکن ہے کہ اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا غضب اس انداز میں نازل ہوا ہو کہ التنور میں بھڑکنے والے انگارے پانی کے بلبلے بن چکے ہوں۔ کیونکہ اگر قوم لوط پرنامزد پتھروں کی بارش ہو سکتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے دہکتی ہوئی آگ ٹھنڈی ہوسکتی ہے۔ تو التنورکے شعلے پانی کے بلبلے کیوں نہیں بن سکتے؟ بہرکیف جوں ہی زمین و آسمان کے پانی نے مل کر بے پناہ طوفان کی ابتدائی شکل اختیار کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا اور اپنے اہل کو بیڑے میں سوار کرلو۔ اس کے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرمادی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے نہایت ہی تھوڑے لوگ تھے تاکہ آئندہ نسلوں کو معلوم ہو کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل ترین کوشش کے باوجود لوگوں نے کفر و شرک نہیں چھوڑا تھا۔ جس بنا پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور قوم نوح کو غرقاب کردیا گیا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () یَوْمًا فَقَالَ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْاُمَمُ فَجَعَلَ یَمُرُّ النَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلُ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلَانِ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّھْطُ وَالنَّبِیُّ وَلَیْسَ مَعَہٗ اَحَدٌ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَرَجَوْتُ اَن یَّکُوْنَ اُمَّتِیْ فَقِیْلَ ھٰذٰا مُوْسٰی فِیْ قَوْمِہٖ ثُمَّ قِیْلَ لِیَ أنْظُرْ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَقِیْلَ لِیَ انْظُرْ ھٰکَذَاوَھٰکَذَا فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقُ فَقَالَ ھٰؤُلٰآءِ اُمَّتُکَ وَمَعَ ھٰؤُلَاءِ سَبْعُوْنَ اَلْفًا قُدَّامَھُمْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ھُمُ الَّذِیْنَ لَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ وَلَا یَکْتَوُوْنَ وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ) [ رواہ البخاری : باب من لم یرق] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک روز نبی محترم (ﷺ) گھر سے باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا‘ مجھ پر امتیں پیش کی گئیں۔ ایک پیغمبر گزرا‘ اس کے ساتھ اس کا ایک پیروکار تھا۔ کسی کے ساتھ دو آدمی تھے۔ کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی۔ اور بعض ایسے پیغمبر بھی ہوئے‘ جن کا کوئی پیروکار نہیں تھا۔ میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑا اجتماع دیکھا‘ جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ میں نے خیال کیا‘ شاید میری امت ہے لیکن بتایا گیا کہ یہ تو موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہے۔ پھر مجھے کہا گیا‘ آپ دیکھیں تو میں نے بہت بڑا اجتماع دیکھا۔ جس نے آسمان کے کناروں کو بھرا ہوا ہے۔ مجھ سے دائیں اور بائیں جانب بھی دیکھنے کے لیے کہا گیا۔ میں نے ہر طرف دیکھا بہت سے لوگ آسمان کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں مجھے کہا گیا‘ یہ سب آپ کے امتی ہیں۔ ان کے ساتھ ستر ہزار وہ بھی ہیں۔ جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ وہ ایسے لوگ ہیں‘ جو نہ بدفالی اور نہ دم کراتے ہیں اور نہ گرم لوہے سے داغتے ہیں۔ بلکہ صرف اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو عذاب کی نشانی سے آگاہ کردیا تھا۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ہرقسم کے جوڑوں میں سے دو، دو سوار کرنے کا حکم ملا تھا۔ 3۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم میں سے بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے۔ 4۔ عذاب کی ابتدا تنور سے ہوئی تھی۔