قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
(اے پیغمبر) ہم دیکھ رہے ہیں کہ (حکم الٰہی کے شوق و طلب میں) تمہارا چہرہ بار بار آسمان کی طرف اٹھ اتھ جاتا ہے تو یقین کرو ہم عنقریب تمہارا رخ ایک ایسے ہی قبلہ کی طرف پھر دینے والے ہیں جس سے تم خوشنود ہوجاؤگے (اور اب کہ اس معاملہ کے ظہور کا وقت آگیا ہے) تو چاہیے کہ تم اپنا رخ مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف پھیر لو اور جہاں کہیں بھی تم اور تمہارے ساتھی ہوں، ضروری ہے کہ (نماز میں) رخ اسی طرف کو پھر جایا کرے۔ اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے (یعنی یہود اور نصآری) وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ معاملہ ان کے پروردگار کی طرف سے ایک امر حق ہے (کیونکہ ان کے مقدس نوشتوں میں اس کی پیشین گوئی موجود ہے اور جیسے کچھ ان کے اعمال ہیں اللہ ان سے غافل نہیں ہے
فہم القرآن : ( آیت 144 سے 145) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ بیت اللہ میں رسول محترم {ﷺ}نماز کے لیے اس طرح کھڑے ہوتے کہ بیک وقت آپ کا رخ بیت اللہ اور بیت المقدس کی جانب ہوا کرتا تھا۔ جب ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو وہاں متضاد جوانب کے ساتھ واسطہ پڑا۔ اگر آپ بیت اللہ کی طرف رخ کرتے تو بیت المقدّس پیٹھ کی طرف ہوتا اور اگر بیت المقدّس کی طرف رخ کرتے تو بیت اللہ پیچھے کی جانب ہوتا تھا۔ اس صورت حال میں رسول کریم {ﷺ}کی تمنّا تھی کہ ہمارا قبلہ مرکز ابراہیمی یعنی بیت اللہ ہونا چاہیے۔ اسی انتظار میں سولہ سترہ ماہ گزر گئے۔ اس دوران آپ کے اشتیاق اور اضطراب میں اضافہ ہی ہوتا رہا جس کی وجہ سے بسا اوقات آپ کا چہرہ بے ساختہ آسمان کی طرف اٹھ جایا کرتا تھا۔ آپ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے تبدیلئ قبلہ کی آرزو کرتے۔ یہ اشتیاق ربِّ رحیم کو اس قدر بھلا لگا کہ قیامت تک اس کا منظر قرآن مجید میں محفوظ فرما دیا۔ جو نہی تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا کہ آپ {ﷺ}اور آپ کی امت کے لوگ نماز میں اپنے چہرے بیت اللہ کی طرف کیا کریں۔ تو اہل کتاب نے پروپیگنڈہ کا طوفان برپا کردیا جس کا ذکر پارے کی ابتدا میں کیا گیا ہے۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ اہل کتاب یہ جانتے ہیں کہ نبئ آخر الزماں {ﷺ}کا قبلہ بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ ہوگا۔ یہ سب کچھ وہ تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ یہ حقیقت جاننے کے باوجود ان کا اعتراض کرناحق چھپانے اور اظہار حسد کا بہانہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے کسی صورت بھی چھپا نہیں سکتے۔ اب فیصلہ ہوچکا ہے لہٰذا میرے پیغمبر! آپ جتنے بھی دلائل دیں اور انہیں جس انداز سے سمجھائیں یہ مسجد حرام کو قبلہ نہیں مانیں گے۔ بیت المقدس کو قبلہ تسلیم کرنے کے باوجود ان کی حالت یہ ہے کہ یہودی بیت المقدس میں کھڑے ہوتے وقت اپنا منہ دیوار گریہ کی طرف کرتے ہیں جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ ہیکل سلیمانی کی بنیاد ہے۔ عیسائی عبادت کے دوران اپنے چہرے اس جانب کرتے ہیں جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے۔ گویا کہ ایک قبلہ ہونے کے باوجود یہ ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ جب یہ اپنے قبلہ پر متفق نہیں ہیں تو آپ ان سے یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ یہ آپ کے قبلہ پر اتفاق کریں گے لہٰذاقیامت تک آپ بھی ان کے قبلہ کو تسلیم کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم معلوم ہوجانے کے بعد اگر آپ خوش کرنے کے لیے ان کی خواہشات کے پیچھے لگیں گے تو یاد رکھیں آپ اس وقت ظالموں میں شمار ہوں گے۔ آپ {ﷺ}کی ذات اقدس کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ اللہ تعالیٰ کا حکم جاننے کے باوجود اس کے برعکس کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ کیونکہ رسول براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں زندگی گزارتا ہے۔ یہاں مسئلہ کی اہمیت اور بنیادی اصول کی وضاحت کے پیش نظر آپ کو مخاطب کیا گیا ہے کہ حق کے مقابلے میں اپنی خواہشات کی پیروی کرنا، اپنے آپ پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایسا بنیادی مسئلہ ہے جس کے بارے میں رسول معظم {ﷺ}فرمایا کرتے تھے : (لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ) [ مشکوٰۃ : باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ] ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔“ رسول اللہ {ﷺ}اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کیا کرتے تھے : (اَللّٰھُمَّ انِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ مُّنْکَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَھْوَآءِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب الدعوات] ” الٰہی میں برے اخلاق، اعمال اور خواہشات کی پیروی سے تیری پناہ چاہتاہوں۔“ آپ {ﷺ}نے فرمایا : اہل کتاب کے بہتر فرقے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی۔ (وَإِنَّہٗ سَیَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ تَتَجَارٰی بِھِمْ تِلْکَ الْأَہْوآءُ کَمَا یَتَجَارَی الْکَلْبُ بِصَاحِبِہٖ لَا یَبْقٰی مِنْہُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دَخَلَہٗ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ] ” عنقریب میری امت میں ایسی قومیں ظہور پذیر ہوں گی کہ خواہشات ان میں ایسے سماجائیں گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹنے سے لاحق ہونے والی بیماری رگ رگ اور ہر جوڑ میں سرایت کر جاتی ہے۔“ مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ نے آپ {ﷺ}کی پسند کے مطابق قبلہ تبدیل فرمادیا۔ 2۔ مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں‘ نماز میں مسجد الحرام کی طرف ہی منہ کیا کریں۔ 3۔ اہل کتاب علمی طور پر مانتے ہیں کہ خانہ کعبہ ہی قبلۂ حق ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ یہود و نصارٰی اور کسی شخص کے کردار سے غافل نہیں ہے۔ 5۔ حق اور سچ ہونے کے باوجود یہود و نصارٰی بیت اللہ کو قبلہ تسلیم نہیں کرتے۔ 6۔ حقیقت کا علم ہونے کے باوجود اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ظالم ہے۔ تفسیر بالقرآن :خواہشات کی پیروی کرنے کے نقصانات : 1۔ علم ہونے کے باوجود دوسروں کے خیالات کی پیروی کرنیوالا اللہ کی نصرت سے محروم ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ:120) 2۔ علم ہونے کے باوجود کفار کے خیالات کو اپنانا ظالموں میں شامل ہونا ہے۔ (البقرۃ:145) 3۔ کتاب اللہ کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ (المائدۃ:48) 4۔ خواہشات کی اتباع کے بجائے کتاب اللہ کے مطابق فیصلے ہونے چاہییں۔ (المائدۃ:29) 5۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ (صٓ:26) 6۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجاتا ہے۔ (طٰہٰ:16) 7۔ سب سے بڑا گمراہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہے۔ (القصص :50) 8۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا خواہشات کو الٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان :43) 9۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المؤمنون :71)