وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
اور نوح پر وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اب کوئی ایمان لانے والا نیہں، پس جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس پر (بے کار کو) غم نہ کھا۔
فہم القرآن : (آیت 36 سے 39) ربط کلام : رسول اکرم (ﷺ) کو حوصلہ دینے اور اہل مکہ کو انتباہ کرنے کے بعد بطور مثال حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی انتھک اور شب وروز کی طویل کوشش کے باوجود قوم اس بات پر مصرہوجاتی ہے کہ اے نوح! تیرے اور ہمارے درمیان اب فیصلے کی ایک ہی صورت باقی ہے کہ حسب اعلان ہم پر اپنے رب کا عذاب نازل کرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے انتہائی مجبور ہو کر اپنے رب کے حضور یہ بددعا کی : ﴿وَقَالَ نُوْحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا۔ إِنَّکَ إِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْا إِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا﴾[ نوح : 26۔27] ” اور نوح نے کہا اے میرے رب ! کفار کا زمین پر کوئی گھر نہیں بچنا چاہیے۔ یقیناً اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل بھی کافر ہی ہوگی۔“ آیت میں مذکورہ بددعا کے نتیجہ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو مخاطب کیا گیا۔ اے نوح! تیری قوم میں سے اب کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا جو ایمان لانا چاہتے تھے سو لاچکے۔ لہٰذا جو کچھ یہ کررہے ہیں اب اس پر غمگین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ہمارے سامنے ہماری ہدایات کے مطابق ایک کشتی تیار کریں۔ ظالموں کو سمجھانے کی اب ضرورت نہیں اور نہ ہی ان سے بحث کرنے کا کچھ فائدہ۔ کیونکہ یہ غرق ہو کر رہیں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور وحی کے مطابق کشتی بنانا شروع کی جوں ہی انکی قوم کے سردار قریب سے گزرتے تو انہیں ٹھٹھا اور مذاق کرتے کبھی کہتے کہ نبوت کے ساتھ ساتھ ترکھانہ کام بھی شروع کردیا ہے۔ کبھی کہتے یہاں کون سا دریا ہے جس میں کشتی چلاؤ گے ؟ نہ معلوم سردار اپنی قوم کو کن کن الفاظ میں یہ بات کہتے ہوں گے کہ دیکھ لیا کہ ہم پہلے ہی کہتے تھے کہ اس شخص کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ دیکھ لو! لوگ بارش کی ایک ایک بوند کے لیے ترس رہے ہیں۔ کوئی دریا بھی قریب نہیں مگر یہ بوڑھا دن رات کشتی بنانے پر لگا ہوا ہے اور ہمیں یہ کہتے ہوئے دھمکیاں دیتا ہے کہ میں کشتی اس لیے بنا رہا ہوں کہ عنقریب اس علاقہ میں بہت بڑا سیلاب آنے والا ہے۔ سرداروں کے ٹھٹھا اور مذاق کا حضرت نوح (علیہ السلام) صرف اتنا جواب دیتے کہ جس طرح تم آج میرا مذاق اڑاتے ہو عنقریب ہم بھی تمہارا ایسا ہی مذاق اڑائیں گے۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر ذلیل کردینے والا، دائمی عذاب نازل ہوتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا، چالیس دن اور چالیس رات تک برابر آسمان سے پانی برستا اور زمین کے چشموں سے پانی اچھلتا رہا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی ساخت : جو کشتی حضرت نوح (علیہ السلام) نے بنائی تھی اس کا طول (200) ہاتھ، عرض (50) ہاتھ، بلندی (30) ہاتھ تھی اور اس کے اندر تین طبقے تھے یعنی یہ کشتی تین سٹوری تھی۔ (بحوالہ : رحمۃ للعالمین : مصنف قاضی سلیمان منصورپوری ) مسائل :1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو بتلادیا گیا کہ اب تیری قوم سے کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کشتی تیار کرنے کا حکم دیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو تنبیہ فرمائی کہ غرق ہونے والوں کے متعلق سوال نہ کرنا۔ 4۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا کفار مذاق اڑاتے تھے۔ 5۔ مصلحین کا مذاق اڑانے والے ایک دن خود مذاق بن جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن :اقوام نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کا مذاق اڑایا : 1۔ جب حضرت نوح کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو ان سے مذاق کرتے۔ (ہود :38) 2۔ یہ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبۃ:79) 3۔ وہ تعجب کرتے اور مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت :12) 4۔ جب وہ ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت :14) 5۔ جب بھی ان کے پاس رسول آتا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے۔ (الحجر :11) 6۔ ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے تھے۔ (الزخرف :7) 7۔ جب بھی ان کے پاس آپ سے پہلے رسول آئے انہوں نے انہیں جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذاریات :52) 8۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب کبھی رسول آئے تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس :30)