سورة ھود - آیت 28

قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَآتَانِي رَحْمَةً مِّنْ عِندِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنتُمْ لَهَا كَارِهُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

نوح نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنے حضور سے ایک رحمت بھی مجھے بخشی دی ہو (یعنی راہ حق دکھا دی ہو) مگر وہ تمہیں دکھائی نہ دے تو (میں اس کے سوا کیا کرسکتا ہوں جو کر رہا ہوں؟) کیا ہم جبرا تمہیں راہ دکھا دیں حالانکہ تم اس سے بے زار ہو؟

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 28 سے 30) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو جواب۔ حضرت نوح (علیہ السلام) قوم کی سطحی اور بے بنیاد گفتگو کا نہایت ہی مدبرانہ جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اے میری قوم کیا تم غور نہیں کرتے؟ کہ میں نے تمہارے سامنے جو دعوت پیش کی ہے اس کے کتنے واضح دلائل اپنے رب کی طرف سے پیش کیے ہیں، جہاں تک میرے بشرہونے کا تعلق ہے اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ میں واقعی بشرہی ہوں۔ لیکن اس میں بھی غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنافضل وکرم فرمایا ہے۔ اس نے تم سب میں سے مجھے ہی اپنے پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ اگر تم جان بوجھ کر حقائق دیکھنے اور ان کو ماننے کے لیے تیار نہیں تو میں کس طرح تم پرہدایت مسلط کرسکتا ہوں۔ اللہ کی ہدایت کو قبول کرنا اس کی رحمت اور فضل کے بغیر ممکن نہیں ہوا کرتا۔ پھر اس بات پر بھی غور کرو کہ میں تمہیں یہ دعوت اس لیے نہیں دے رہا کہ اس کے بدلے مجھے کسی مال، منصب یا شہرت کی غرض ہے۔ میں آپ سے اجرکاطالب ہونے کی بجائے اپنے رب پر بھروسہ رکھتا ہوں کہ وہی مجھے اس کا اجر عنایت فرمائے۔ جہاں تک آپ کے اس مطالبے کا تعلق ہے کہ میں غریب اور کمزور ایمانداروں کو چھوڑدوں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جو اپنے رب کی رضا اور ملاقات کی چاہت رکھتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں۔ میں رب کے منکروں کو ترجیح دوں، تمہارا یہ مطالبہ سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ اگر میں مخلص اور ایمان میں سچے لوگوں کو اپنے سے دور کردوں تو اس جرم کے بدلے اللہ تعالیٰ سے مجھے کون چھڑائے گا؟ کیا تم اس حقیقت اور دعوت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہو؟ مسائل : 1۔ انبیاء ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزات لے کر آتے ہیں۔ 2۔ کسی کو ہدایت دیناانبیاء کے اختیار میں نہیں تھا۔ 3۔ انبیاء (علیہ السلام) لوگوں سے اجر کے خواہاں نہیں ہوتے تھے۔ 4۔ انبیاء (علیہ السلام) مسکینوں کو التفات خاص سے محروم نہیں کرتے۔ 5۔ ایمان والے اپنے رب سے ملاقات کریں گے۔ 6۔ ایمان والوں کو کم تر اور حقیر جاننے والے جاہل ہوتے ہیں۔ 7۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ کے تابع داروں سے کبھی اعراض نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء کرام (علیہ السلام) نبوت کے کام پر کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے : 1۔ حضرت نوح نے فرمایا میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود :29) 2۔ حضرت ہود نے فرمایا کہ میں تم سے تبلیغ کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعرا :127) 3۔ حضرت صالح نے فرمایا کہ میرا اجر اللہ رب العالمین پر ہے اور تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ (الشعرا : 141، 145) 4۔ میرا اجر اللہ پر ہے اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا :47) 5۔ میرا اجر اللہ پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ہود :51) 6۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا میں تجھ سے نہ اجر چاہتاہوں اور نہ کسی قسم کا تکلف کرتا ہوں۔ (ص :86)