مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ
جو کوئی (صرف) دنیا کی زندگی اور اس کی دلفریبیاں ہی چاہتا ہے تو (ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون یہ ہے کہ) اس کی کوشش و عمل کے تنائج یہاں پورے پورے دے دیتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ دنیا میں اس کے ساتھ کمی کی جائے۔
فہم القرآن : (آیت 15 سے 16) ربط کلام : لوگ دنیا کے مفاد اور اس کی زیب وزینت کے لیے حقائق کو ٹھکراتے ہیں جس بنا پر دنیا کی حقیقت کو واضح کردیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس نیت کے ساتھ کسی کام کے لیے کوشش کرے گا اسے اس کی نیت اور کوشش کے مطابق صلہ دے گا۔ اگر کوئی آدمی صرف دنیا اور اس کی اچھی شہرت کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اسے دنیا میں نیک نامی مل جائے گی۔ اگر وہ دنیا اور آخرت کے لیے کوشاں ہے تو اسے دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی اس کی کوشش سے کئی گنازیادہ صلہ دیا جائے گا۔ دونوں قسم کے لوگوں کے بدلہ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ یہاں اسی اصول کو یوں بیان فرمایا ہے کہ جو شخص دنیا اور اس کی آسایش وزیبایش یعنی اس کی ترقی کے لیے کوشش کرے گا۔ اس کے صلہ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ مختلف مذاہب اور اقوام کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنی اپنی قوم اور نظریہ کے لیے جس جس انداز میں محنت اور قربانیاں پیش کیں۔ اسی قدر ہی وہ لوگ اپنی اپنی قوم کے ہیرو ٹھہرے۔ جنہیں لوگ اپنے اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ گنگارام، میو اور لیڈی ولنگٹن نے لاہور میں ہسپتال بنائے۔ تو انہیں سرکاری خطاب دیا گیا اور آج تک لوگ انہیں اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے برے الفاظ میں ان کا نام نہیں لیا۔ یہ شہرت اور نیک نامی اللہ تعالیٰ کے اسی اصول اور فرمان کا نتیجہ ہے کہ جو کوئی دنیا کے لیے اچھی کوشش کرے گا اس کی کوشش کے صلہ میں کوئی کمی نہیں رہنے دی جائے گی۔ اِلّا یہ کہ اس نے یہ کام اپنی قوم اور ملک کے لیے خلوص کے ساتھ کیا ہو۔ اس کے ساتھ وضاحت فرمادی کہ آخرت میں آگ کے سوا یہ کچھ نہیں پائیں گے۔ کیونکہ دنیا کی خاطرکوشش کرنے والا انسان آخرت کی جوابدہی پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس لیے انہیں آخرت میں آگ کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ انہوں نے دنیافانی کے لیے محنت کی دنیا بالآخر ختم ہوجائے گی۔ لہٰذا دنیا کے خاتمہ کے ساتھ ہی ان کے کارنامے اور ان کی شہرت ختم ہوجائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ آخرت کی جزا اور اللہ تعالیٰ کے مالک یوم الدین ہونے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے انھیں قیامت کے دن کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ عقیدہ آخرت کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے عدل وانصاف کے ساتھ ہے۔ اس لیے آخرت کا منکر بیک وقت اسلام کے دوبنیادی عقائد کا انکار کرتا ہے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیْئَتِی یَوْمَ الدِّیْنِ) [ رواہ مسلم : باب الدلیل علی ان من مات علی الکفر لاینفعہ عمل] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) عبداللہ بن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا اس کے یہ اعمال اسے نفع دیں گے آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ اس نے کبھی یہ بات نہیں کہی تھی کہ اے اللہ قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف کردینا۔“ مسائل : 1۔ دنیا دار لوگوں کو دنیا میں ہی بدلہ دیا جاتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کسی کے اجر میں کمی نہیں کرتا۔ 3۔ صرف دنیا کے خواہش مند کو آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ 4۔ کفار کے اعمال تباہ وبرباد ہوجائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہر اچھے کام کا صلہ دیتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ ہر اچھے کام کا اچھاصلہ دیتا ہے۔ (النجم :25) 2۔ ہم ان کے اعمال کی جزا پوری دیں گے اور کوئی کمی نہیں کریں گے۔ (ہود :15) 3۔ اللہ ان کی نیکی کا صلہ اچھائی کی صورت میں دے گا۔ (النجم :31) 4۔ جو نیک اعمال کرتے رہے ہیں اللہ ان کا بدلہ دے گا۔ (الزمر :35) 5۔ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (سبا :4) 6۔ جو صبر کرتے رہے ہم ان کو بہترین صلہ عطا کریں گے۔ (النحل :96)