فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
پھر (اے پیغمبر) کیا تو ایسا کرے گا کہ جو کچھ تجھ پر وحی کیا جاتا ہے اس میں سے کچھ باتیں چھوڑ دے گا اور اس کی وجہ سے دل تنگ رہے گا؟ اور یہ اس لیے کہ لوگ کہہ اٹھیں گے اس آدمی پر کوئی خزانہ (آسمان سے) کیوں نہیں اتر آیا؟ یا ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ آکر کھڑا ہوجاتا؟ (نہیں تجھے تو دل تنگ نہیں ہونا چاہیے) تیرا مقام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کرنے والا ہے (تجھ پر اس کی ذمہ داری نہیں کہ لوگ تیری باتیں مان بھی لیں) اور ہر چیز پر اللہ ہی نگہبان ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : صبر کا اجروثواب ذکر کرنے کے بعدرسول محترم (ﷺ) کو تسلی اور اطمینان دلایا گیا ہے۔ جس میں بالواسطہ صبر کی ترغیب دی گئی ہے۔ رسول محترم (ﷺ) بے پناہ اخلاص اور انتھک محنت کے ساتھ صبح وشام لوگوں کو سمجھاتے کہ جس راہ پر تم چلے جا رہے ہو یہ تمہیں تباہی کے گھاٹ اتار دے گا۔ لیکن لوگ سمجھنے کی بجائے آپ (ﷺ) کی ذات اقدس پر مختلف قسم کے الزامات اور آپ سے الٹے سیدھے مطالبات کرتے۔ ان مطالبات میں یہ مطالبے بھی تھے کہ تم کیسے رسول ہو کہ نہ تیری تائید اور حمایت کے لیے فرشتہ بھیجا گیا اور نہ ہی تجھے خوشحالی حاصل ہے۔ تیرے پاس تو کثیر مال ہونا چاہیے تھا۔ اس کے جواب میں ایک طرف رسول محترم (ﷺ) کو تسلی دی گئی کہ اے نبی! آپ کو لوگوں کی طرف اس لیے بھیجا ہے کہ آپ انہیں ان کے برے اعمال کے انجام سے متنبہ فرمائیں۔ ہم نے آپ کو چوکیدار مقرر نہیں کیا۔ لہٰذا ! نہ آپ کو دل تنگ کرنا چاہیے اور نہ ہی وحی میں سے کچھ حصہ چھوڑنے کا خیال آنا چاہیے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ آپ ایسا کرنے کے لیے سوچتے تھے۔ بلکہ اس سے آپ کے دل کی پریشانی اور غم بیان کرنا مقصود اور تسلی دینا مطلوب ہے، جس کا یہ بھی مفہوم ہے کہ کیا آپ ایسے الزامات اور اعتراضات سے پریشان ہو کر وحی کا کچھ حصہ چھوڑ دیں گے ظاہر ہے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اسی بات کا المائدۃ آیت 67میں یوں حکم دیا : ” اے رسول جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا یقیناً اللہ انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ دوسری طرف کفار کو سمجھایا گیا کہ اگر ہم اپنے رسول کی تائید میں فرشتہ نازل کرتے۔ تو تمہارے انجام کا فیصلہ موقع پر ہی کردیا جاتا۔ یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ وہ اپنے باغیوں کو بھی عرصہ دراز تک مہلت دیے رکھتا ہے۔ رسول محترم (ﷺ) کے مخالف کس قدر بے اصول اور سفلی مزاج تھے کہ وہ بیک موقع اور زبان ایک طرف یہ مطالبہ کرتے کہ آپ کی تائید میں ایک فرشتہ کی ڈیوٹی ہونی چاہیے تھی۔ دوسری طرف کبھی آپ (ﷺ) کو جادوگر قرار دیتے اور اسی زبان سے یہ الزام دیتے کہ آپ پر جادو ہوچکا ہے۔ ایسے بے اصول اور بدزبان لوگوں کے بارے میں آپ کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی ہے کہ آپ ان کے ساتھ بحث ومباحثہ کرنے کی بجائے فقط اتناہی فرمائیں کہ میں رسول ہوں چوکیدار نہیں۔ مسائل :1۔ وحی میں سے کوئی بات چھوڑدینا آپ (ﷺ) کے اختیار میں نہ تھا۔ 2۔ کفار نبی مکرم (ﷺ) پر خزانہ اترنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ 3۔ کفار آپ کے ساتھ فرشتے کی تائید کا مطالبہ کرتے تھے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر کارساز ہے۔ تفسیر بالقرآن :نبی، مبلغ ہوتا ہے نہ کہ چوکیدار : 1۔ آپ (ﷺ) تو ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود :12) 2۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لیناہمارا کام ہے۔ (الرعد :40) 3۔ رسولوں کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ (النحل :35) 4۔ آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا گیا آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے۔ (الشوریٰ:48) 5۔ (پیغمبروں نے کہا) ہمارے ذمہ دین کی تبلیغ کرنا ہے۔ (یٰس :17) 6۔ آپ نصیحت کریں آپ کا کام بس نصیحت کرنا ہے، آپ کو کو توال نہیں بنایا گیا۔ (الغاشیۃ: 21۔22)