وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ
اور (اے پیغمبر) اگر تیرا پروردگار چاہتا تو جتنے آدمی روئے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے (اور دنیا میں اعتقاد کا اختلاف باقی ہی نہ رہتا لیکن تو دیکھ رہا ہے کہ اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس کی مشیت یہی ہوئی کہ طرح طرح کی طبیعتیں اور طرح طرح کی استعداد دیں ظہور میں آئیں، پھر اگر لوگ نہیں ماتے تو) کیا تو ان پر جبر کرے گا کہ جب تک ایمان نہ لاؤ میں چھوڑنے والا نہیں؟
فہم القرآن : (آیت 99 سے 100) ربط کلام : کیونکہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم عذاب دیکھ کر سچا ایمان لائی اور توبہ کی اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ وضاحت کردی جائے کہ اللہ تعالیٰ جبراً کسی کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کرتا۔ جس طرح کہ پہلی آیات کی تفسیر میں عرض کیا گیا ہے۔ کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب بھیجنے کے باوجود اس لیے انہیں معاف کردیا گیا کہ ابھی پوری طرح ان پر اتمام حجت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اللہ کے حضور عجزو عاجزی کی ایک نئی مثال قائم کی تھی جس بنا پر ان پر آیا ہوا عذاب ٹال دیا گیا۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو یہ خیال آسکتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہر دور کے مجرموں کو راہ راست پر لانے کے لیے تھوڑا سا جبر اختیار فرما لے تو لوگ ہدایت پر آسکتے ہیں۔ اس خیال کی نفی کی خاطریہاں یہ اصول بیان کردیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ نہیں کہ لوگوں کو جبر کے ذریعے اپنی ذات منوائے اور دین پر گامزن کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ انداز اختیار فرمائے تو زمین پر بسنے والے ہر دور کے انسان ایمان قبول کرلیتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور کی صلاحیت سے سرفراز کیا ہے۔ جسے بروئے کار لانا ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔ اگر لوگ عقل وخرد رکھتے ہوئے بھی نفع اور نقصان، برائی اور اچھائی، نیکی اور بدی میں فرق نہیں کرتے تو اس کا انجام انہیں بھگتنا پڑے گا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کی توفیق اسے ضرور مل جاتی ہے جو خلوص نیت کے ساتھ ایمان کی جستجو کرتا ہے۔ جو کسی قسم کا تعصب اور دنیوی مفاد پیش نظر رکھے گا اس پر عقیدے کی گندگی اور بدعملی کی نحوست مسلط کردی جاتی ہے۔ اس فرمان میں یہی اصول سمجھانے کے لیے یہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے اذن کا نتیجہ ہوتی ہے اور برائی بھی اسی کی جانب سے ہوتی ہے۔ جس کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ کوئی ہدایت کا طالب ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دیتا ہے جو برائی کا طلبگار ہوتا ہے اس کے لیے برائی کا راستہ کھول دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے یوں بھی بیان کرتے ہیں : ﴿إِنَّا ہَدَیْنَاہ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُوْرًا ﴾[ الدھر :3] ” ہم نے انسان کو راستے کی راہنمائی کی۔ چاہے تو وہ ہدایت کا راستہ اختیار کرے۔ چاہیے تو گمراہی کا راستہ اختیار کرلے۔“ مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ جبر کرتے تو سارے لوگ ایمان لے آتے۔ 2۔ آدمی ہدایت کے راستے کو چھوڑ دے تو اس پر گمراہی مسلط کردی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت نہیں دیتا : 1۔ اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کے تمام لوگ ایمان لے آتے۔ (یونس :99) 2۔ کیا آپ لوگوں پر ایمان کے معاملہ میں جبر کرسکتے ہیں؟ (یونس :99) 3۔ دین میں جبر نہیں ہے۔ (البقرۃ:256) 4۔ ہم نے قوم ثمود کو ہدایت دی انہوں نے ہدایت کے بدلے جہالت کو پسند کیا۔ (حم السجدۃ:17) 5۔ اللہ ایسی قوم کو کیسے ہدایت دے جو ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرتی ہے۔ (آل عمران :86) 6۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ (الشورٰی :13) 7۔ اگر اللہ چاہتا تو سبھی کو ہدایت دے دیتا اور کافر تو اسی حال میں ہی رہیں گے۔ (الرعد :31)