فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
اور اگر تمہیں اس بات میں کسی طرح کا شک ہو جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو تمہارے زمانے سے پہلے کی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں (یعنی اہل کتاب) کہ یقینا یہ سچائی ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر اتری ہے تو ہرگز ایسا نہ کرنا کہ شک کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔
فہم القرآن : (آیت 94 سے 97) ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی قوم کے مصائب کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ (ﷺ) کوتسلی اور تشفی دی گئی ہے۔ اے رسول (ﷺ) ! جو کچھ ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے اگر آپ کو اس بارے میں کوئی شک ہے تو آپ ان لوگوں سے پوچھ لیں۔ جن کو آپ سے پہلے کتاب عنایت کی گئی ہے یقین فرمائیں کہ آپ کے پاس حق پہنچ چکا ہے لہٰذا آپ کو شک کرنے والوں کا ساتھی نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ان لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے جو اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ یہ لوگ ضرور نقصان پائیں گے۔ یقیناً آپ کے رب کا فرمان سچ ہے کہ اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے ان آیات میں رسول کریم (ﷺ) کی ذات کو مخاطب فرمانے کے کئی مقاصد ہیں۔ 1۔ قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ جب اہم اور مشکل ترین مسئلہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے تو رسول کریم (ﷺ) کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ تاکہ قرآن پڑھنے والا چونک اٹھے کہ جب اس مسئلہ میں نبی اکرم (ﷺ) کی ذات بھی مستثنیٰ نہیں تو میری کیا حیثیت ہے۔ 2۔ خطاب رسول معظم (ﷺ) سے ہے مگر مقصود آپ کی امت ہے۔ بات کی اہمیت اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ آپ کو اس سچائی میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ 3۔ بات کی اہمیت کے پیش نظر اس میں مزید زور پیدا کرنے کے لیے بھی مخاطب کو کہا جاتا ہے کہ تمہیں اس سچائی میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ 4۔ حالات کے دباؤ اور پریشر ہونے کے ناطے سے نبی اکرم (ﷺ) کے دل میں کسی خیال کا آجانا یہ ایمان اور نبوت کے منصب کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ دل کے خیالات پر موخذاہ نہیں کرتا۔ 5۔ نبی اکرم (ﷺ) کو یہ فرمایا جانا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی آیات جھٹلانے والوں کے ساتھ نہیں دینا چاہیے یہ ارشاد بھی پہلے فرمان کے تابع اور خاص کر امت کے لیے ہے کیونکہ دنیا میں کتنے ہی سچائی کا دم بھرنے والے ہیں۔ جو حق جاننے کے باوجود حق والوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ مصلحت اور مفاد کی خاطر جھوٹے لوگوں کی معاونت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حقیقی ایمان لانے کی توقع رکھناعبث ہوتا ہے۔ اگر ان کے سامنے حقائق کھول کھول کر رکھ دیئے جائیں تب بھی مصلحت اور مفاد کی خاطر سچائی قبول کرنے اور اس کی حمایت کے لیے کھڑے نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ انہیں اللہ کا عذاب آلے۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ قُلُوْبَ بَنِیْ اٰدَمَ کُلَّھَا بَیْنَ اِصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَّاحِدٍ یُّصَرِّفُہُ کَیْفَ یَشَآءُ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَللّٰھُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ)[ رواہ مسلم : باب تصریف اللہ القلوب ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا تمام انسانوں کے دل رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں جیسے وہ چاہتا ہے پھیرتا ہے۔ پھر رسول اکرم (ﷺ) نے دعا کی ” اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی فرماں برداری پر پھیرے رکھنا۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یُکْثِرُ أَنْ یَقُول اللَّہُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دینِکَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُول اللَّہِ تَخَافُ عَلَیْنَا وَقَدْ آمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ بِمَا جِئْتَ بِہِ فَقَالَ إِنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ یُقَلِّبُہَا )[ رواہ ابن ماجہ، باب دعا رسول اللہ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) اکثر دعا کرتے تھے اے اللہ ! میرے دل کو دین پر ثابت قدم فرما ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) آپ ہمارے بارے میں ڈرتے ہیں حالانکہ ہم آپ پر ایمان لائے اور جو آپ لائے اس کی تصدیق کی آپ نے فرمایا یقیناً دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جیسے چاہتا اسے پھیرتا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ کے نازل کردہ قرآن میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے خسارہ پائیں گے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ایمان نہیں لائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں شک نہیں کرنا چاہیے : 1۔ آپ کے پاس حق آگیا ہے سو آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (یونس :94) 2۔ آپ کے پروردگار کی طرف سے حق آچکا آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (آل عمران :60) 3۔ اہل کتاب جانتے ہیں بے شک قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (الانعام :111) 4۔ حق آپ کے رب کی طرف سے ہے پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (البقرۃ:147) 5۔ پس آپ شک میں مبتلا نہ ہوں یقیناً حق آپ کے رب کی طرف سے ہے۔ (ھود :17) 6۔ یقیناً حق آپ کے رب کی طرف سے ہے آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (آل عمران :60)