وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو (اپنے عدہ کے مطابق فلسطین میں) بسنے کا بہت اچھا ٹھکانا دیا تھا اور پاکیزہ چیزوں سے ان کی روزی کا سامان کردیا تھا، پھر جب کبھی انہوں نے (دین حق کے بارے میں) اختلاف کیا تو علم کی روشنی ضرور ان پر نمودار ہوئی (یعنی ان میں یکے بعد دیگرے نبی مبعوث ہوتے رہے لیکن پھر بھی وہ حقیقت پر متفق نہ ہوئے) قیامت کے دن تمہارا پروردگار ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں باہم اختلاف کرتے رہے ہیں (یعنی انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت حال کیا تھی)
فہم القرآن : ربط کلام : فرعون اور اس کے ساتھیوں کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کے مرتبہ و مقام کا بیان۔ فرعون اور اس کے لشکر و سپاہ کو غرقاب کرنے کے بعد بنی اسرائیل کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے انہیں مقام صدق اور حلال و طیب رزق کی فراوانی سے ہم کنار کیا۔ لفظ صدق یہاں بڑے وسیع تر معانی میں استعمال ہوا ہے۔ صدق سے مراد وہ مرتبہ اور مقام ہے جو آل فرعون کی بربادی کے بعد بنی اسرائیل کو حاصل ہوا۔ دنیا میں بنی اسرائیل کی سچائی اور ان کی بزرگی کی دھوم مچ گئی۔ اقتدار کے اعتبار سے انہیں شام، مصر فلسطین اور اس پورے علاقے پر حکمرانی کا موقع ملا جس پر آل فرعون کا پھر یرا بلند ہوا کرتا تھا۔ کھانے پینے کے حوالے سے انہیں ہر پاک اور طیب نعمت سے نوازا گیا۔ انہی کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل کو تورات، حکومت، نبوت، رزق طیب اور اس زمانے کی پوری دنیا پر فضیلت عطا کی گئی۔ (الجاثیہ :16) چاہیے تو یہ تھا کہ یہ قوم اللہ تعالیٰ کی شکر گزار اور اس کے دین پر ثابت قدم رہتی لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد انہوں نے پے درپے انبیاء (علیہ السلام) کی گستاخیاں کیں اور اللہ تعالیٰ کی بغاوت کا راستہ اختیار کیا۔ بنی اسرائیل کی ناشکری اور متلون مزاجی کا حال یہ تھا کہ جونہی فرعون غرق ہوا اور یہ دریا عبور کرکے آگے چلے تو انہوں نے راستہ میں ایسے لوگ دیکھے کہ جو بتوں کے سامنے سجدہ کرتے اور اعتکاف کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ناشکری قوم سب کچھ بھول کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہمارے لیے بھی اس قسم کے الٰہ بنادیں جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے ناراضگی کے عالم میں فرمایا کہ تم تو جاہل قوم ہو۔ کیا میں اللہ کو چھوڑ کر تمہیں ان کی عبادت کی اجازت دوں حالانکہ اس نے پوری دنیا میں تمہارے وقار کو بلند کیا ہے۔ (الاعراف 138۔140) ﴿وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِیْہِ وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ وَإِنَّہُمْ لَفِیْ شَکٍّ مِنْہُ مُرِیْبٍ﴾[ ھود :110] ” ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی جس میں اختلاف کیا گیا اگر آپ کے رب کا حکم پہلے سے طے شدہ نہ ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا اور وہ اس کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔“ اختلاف فی نفسہ بری بات ہے لیکن قرآن و سنت کا علم آجانے کے بعد مذہبی تعصب، ذاتی مفاد اور اپنی انا کی خاطر حقائق ٹھکرائے رکھنا، پرلے درجے کی گمراہی ہے ایسے لوگ بہت کم ہدایت پایا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے روز ان کا فیصلہ کرے گا۔ یہاں اختلاف سے پہلی مراد گمراہی اور العلم سے مراد قرآن و سنت کا علم ہے۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَجُلًا قَرَأَ وَسَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقْرَأُخِلَافَھَا فَجِئْتُ بِہِ النَّبِیَّ (ﷺ) فَاَخْبَرْتُہُ فَعَرَفْتُ فِیْ وَجْھِہِ الْکَرَاھِیَۃَ فَقَالَ کِلَاکُمَامُحْسِنٌ فَلَا تَخْتَلِفُوْا فَاِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ اخْتَلَفُوْا فَہَلَکُوْا)[ رواہ البخاری : کتاب الخصومات، باب مایذکر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم والیھود] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں۔ میں نے ایک آدمی کو تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ جبکہ میں نے نبی مکرم (ﷺ) کو اس کی تلاوت کے برعکس تلاوت کرتے سنا تھا۔ میں اسے لے کر نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپ سے پوری بات عرض کی تو میں نے آپ کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات دیکھے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا تم دونوں کی تلاوت درست ہے۔ اس طرح اختلافات نہ کیا کرو۔ تم سے پہلے لوگ اس اختلاف کی وجہ سے برباد ہوئے تھے۔“ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لِاُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ (رض) اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَنِیْ اَنْ اَقْرَاَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ قَالَ اٰللّٰہُ سَمَّانِیْ لَکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَقَدْ ذُکِرْتُ عِنْدَرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ نَعَمْ فَذَرَفَتْ عَیْنَاہُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَنِیْ اَنْ اَقْرَأَ عَلَیْکَ ﴿لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ قَالَ وَسَمَّانِیْ قَالَ نَعَمْ فَبَکٰی)[ رواہ البخا ری : باب مناقب ابی بن کعب] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم (ﷺ) نے ابی بن کعب (رض) سے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں قرآن مجیدکی تلاوت تجھ سے سنوں ابی (رض) نے عرض کیا کہ اللہ نے آپ کو میرا نام لے کر فرمایا ہے؟ آپ (ﷺ) نے ہاں میں جواب دیا۔ حضرت ابی (رض) نے پھر حیران ہو کر پوچھا کیا رب العالمین کے ہاں میرا ذکر ہوا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا بالکل ذکر ہوا ہے۔ اس خوشی سے حضرت ابی (رض) کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ایک روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں ﴿لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ کی تلاوت تجھ سے سنو۔ انہوں نے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں تیرا نام لیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابی بن کعب (رض) خوشی سے روپڑے۔“ مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اعلیٰ مقام عنایت فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبرداروں کو بہترین ٹھکانہ عطا فرماتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پاک رزق عطا فرماتا ہے۔ 4۔ کچھ لوگ حقیقت جاننے کے باوجود حقائق کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ اختلاف کرنے والوں میں فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن :بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات : 1۔ ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانہ دیا اور انہیں عمدہ چیزوں کارزق عطا کیا۔ (یونس :93) 2۔ اے بنی اسرائیل میرے انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے۔ (البقرۃ :40) 3۔ اے بنی اسرائیل میری نعمتوں کو یاد کرو جو تم پر انعام کیں اور میں نے تمہیں ساری دنیا پر فضیلت دی۔ (البقرۃ :47) 4۔ بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑا گیا۔ (البقرۃ :50) 5۔ اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے بارہ چشمے جاری فرمائے۔ (الاعراف :160) 6۔ ہم نے بنی اسرائیل کوا ذیت ناک عذاب سے نجات دی۔ (الدخان :30) 7۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو نبوت، کتاب، حکومت، رزق اور دنیا بھر میں عزت دی۔ (الجاثیہ :16) 8۔ تمام کھانے بنی اسرائیل کے لیے حلال تھے مگر جو انہوں نے اپنے اوپر حرام کرلیے۔ (آل عمران :93) 9۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے صبر کی وجہ سے کامل بھلائیاں دیں۔ (الاعراف :137) 10۔ ہم نے بنی اسرئیل پربادلوں کا سایہ کیا اور ان کے لیے آسمان سے من وسلویٰ نازل کیا۔ (البقرۃ:57)