فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ
تو دیکھو اس پر بھی ایسا ہوا کہ موسیٰ پر کوئی ایمان نہیں لایا مگر صرف ایک گروہ جو اس کی قوم کے نوجوانوں کا گروہ تھا، وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتا ہوا کہ کہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں، اور اس میں شک نہیں کہ فرعون ملک (مصر) میں بڑا ہی سرکش (بادشاہ) تھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ (ظلم و استبداد میں) بالکل چھوٹ تھا۔
فہم القرآن : (آیت 83 سے 86) ربط کلام : حق ثابت ہونے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے غالب آنے کے باوجود چند نوجوانوں کے سوا باقی لوگ ایمان نہ لائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر ملک کے نامی گرامی صاحب علم لاکھوں کے مجمع میں ہزاروں کی تعداد میں بیک وقت ایمان لے آئے، یاد رہے اس وقت مصر میں جادو ہی ترقی یافتہ علم سمجھا جاتا تھا۔ حق ثابت ہونے اور جادوگروں کے ایمان لانے کے باوجود فرعون کے جورو استبداد اور دبدبہ کی وجہ سے چند نوجوانوں کے سوا باقی لوگ ایمان نہ لائے کیونکہ فرعون بہت ظلم کرنے والا تھا۔ فرعون نے اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے ایک دفعہ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کا قتل عام شروع کیا۔ جس میں مردوں کو قتل کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ سورۃ المومن میں بیان ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے پاس حق پہنچ چکا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ کہ ایمانداروں کو قتل کیا جائے اور ان کی عورتوں کو باقی رکھا جائے اور فرعون نے اپنی قوم کو یہ بھی کہا کہ مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل بھی کرنا چاہتا ہوں وہ میرے مقابلے میں اپنے رب کو بلا لے اگر میں نے اسے قتل نہ کیا تو وہ تمہارا دین بدل دے گا اور ملک میں فساد برپا ہوجائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں فقط اتنا فرمایا کہ میں ہر متکبر اور قیامت کے منکر سے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ مانگتا ہوں۔ ( المومن : 25۔27) نازک اور پریشان کن حالات میں قوم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگی اے موسیٰ آپ کی پیدائش کے وقت اور آپ کی نبوت کے بعد بھی ہمیں ان تکلیفوں کا سامنا ہے۔ حضرت موسیٰ نے انہیں سمجھایا کہ صبرو کرو۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو، بالآخر زمین کے وارث نیک لوگ ہی ہوں گے عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمن کو نیست و نابود کرکے تمہیں وارثبنائے گا پھر تمہیں دیکھے گا کہ تم کیا کردار ادا کرتے ہو۔ ( الاعراف : 128۔129) دین میں نوجوانوں کا کردار : اس میں شک نہیں کہ عمر اور تجربے کے اعتبار سے آدمی جوانی کی نسبت ادھیڑ عمر میں زیادہ پختہ فکر ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوچنے سمجھنے اور کسی موقف کو اختیار کرنے میں انسان بھرپور جوانی کے دور میں ہی صحیح فیصلہ کرسکتا ہے شرط یہ ہے کہ اس کی راہنمائی کا صحیح بندوبست ہو۔ یہ اصول اور سوچ ہمیں انبیائے کرام کی سیرت اور ان کے ابتدائی ساتھیوں سے ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قرآن مجید میں یہ الفاظ ملتے ہیں کہ جب وہ بھرپورجوان ہوئے تو ہم نے انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ (یوسف :22) یہاں تک کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں بھی قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب انہوں نے عراق کے سب سے بڑے بت خانے کو توڑا تھا تو اس وقت وہ بھرپور جوانی کے عالم میں تھے۔ اس لیے مشرکین نے اپنے معبودوں کو اس حال میں دیکھ کر کہا تھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام اس جوان نے کیا ہے جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔ (الانبیاء :60) قرآن مجید نے اصحاب کہف کے واقعہ میں (9) نوجوانوں کے کردار اور ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے رسول ! ہم آپ کے سامنے ٹھیک ٹھیک انداز میں ان نوجوانوں کا واقعہ بیان کرتے ہیں جو اپنے رب پر ایمان لے آئے اور ہم نے انہیں ہدایت میں مزید آگے بڑھایا اور ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔ چنانچہ جب انہوں نے کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جو زمین و آسمان کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی کو الٰہ ماننے کے لیے تیار نہیں اگر ہم دوسروں کو رب تسلیم کریں اور پکاریں تو یہ بڑی بے عقلی کی بات ہوگی۔ (الکہف : 13۔14) یہی کردار موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے نوجوانوں کا تھا۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں نے بھی اسی کردار کا مظاہرہ کیا تھا۔ چنانچہ سیرت طیبہ اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخصیت کو بزرگوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والا شمار کیا جاتا وہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) ہیں حالانکہ وہ بھرپور جوانی میں تھے جب وہ ایمان لے آئے تو ان کی عمر تقریباً پونے اڑتیس سال کی تھی۔ مسائل : 1۔ لوگ مشکلات سے ڈرتے ہوئے ایمان نہیں لاتے۔ 2۔ فرعون زیادتی کرنے والوں میں سے تھا۔ 3۔ ایمان والوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے۔ 4۔ اللہ کے فرمانبردار بندے اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ 5۔ ظالموں کے ظلم سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنی چاہیے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مسلمانوں کو کافروں کے ظلم سے بچاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : مومن کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ 1۔ حضرت موسیٰ کا ایمانداروں کو ارشادکہ اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر تم مسلمان ہو۔ (یونس :84) 2۔ مومنوں کو اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔ (آل عمران :122) 3۔ مومن اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ (الانفال :2) 4۔ جب کسی کام کا ارادہ کر لوتو اللہ پر توکل کرو اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (آل عمران :159) 5۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور نیک لوگ اللہ پرہی توکل کرتے ہیں۔ (یوسف :67) 6۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اسی پر مومنوں کو توکل کرنا چاہیے۔ (التغابن :13) 7۔ جو اللہ کے ہاں ہے وہ مومنوں کے لیے بہتر اور باقی رہنے والا ہے وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ (الشورٰی :36)