سورة البقرة - آیت 137

فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر اگر یہ لوگ بھی ایمان کی راہ اختیار کرلیں۔ اسی طرح جس طرح تم نے اختیار کی ہے تو سارے جھگڑے ختم ہوگئے، اور انہوں نے ہدایت پا لی۔ لیکن اگر اس سے روگردانی کریں تو پھر سمجھ لو کہ (ان کے ماننے کی کوئی امید نہیں) ان کی راہ (طلب حق کی جگہ) ہٹ دھرمی کی راہ ہے۔ پس (ان سے قطع نظر کرلو اور اپنے کام میں سرگرم رہو) وہ وقت دور نہیں جب اللہ کی مدد تمہیں ان مخالفتوں سے بے پروا کردے گی۔ وہ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے !

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 137 سے 138) ربط کلام : صحابہ کرام {رض}نبی {ﷺ}کی دعوت کے وارث اور اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے جس وجہ سے ان کے ایمان کو ایمان کی کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔ اے یہود و نصاریٰ اور دنیا کے لوگو! اگر تم صحابہ کرام {رض}کی طرح ایمان اور تسلیم و رضا کا رویہ اختیار کرلو تو ہدایت پا جاؤ گے۔ اگر لوگ نبی کی دعوت اور صحابہ کے طریقہ کا انکار کریں تو پھر سمجھ جائیے کہ یہ لوگ مخالفت برائے مخالفت کی روش کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مسلمانو! بے پرواہ ہوجاؤ کفار کا حسد و بغض اور اختلاف تم کو حقیقی اور دائمی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شرارتوں سے تمہیں محفوظ رکھنے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ اللہ ان کی زبان درازیوں اور سازشوں کو جاننے اور سننے والا ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب نے اپنی پہچان کے لیے اپنے طور پر کچھ شعار اور نشان مقرر کر رکھے ہیں نبی اکرم {ﷺ}کے دور میں غیر یہودی یہودیت میں داخل ہوتا تو یہودی اسے خاص طریقے سے غسل دیتے اور عیسائی اپنے مذہب میں داخل ہونے والے کو رنگ دار پانی کے ساتھ نہانے کا حکم دیتے۔ جسے اصطباع کا نام دیا گیا تھا۔ بعدازاں یہودیوں نے مذہبی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے آہستہ آہستہ یہ عقیدہ بنا لیا کہ نسلی یہودی کے علاوہ غیر مذہب کا کوئی شخص یہودی مذہب قبول نہیں کرسکتا عیسائیوں نے بپتسمہ کی رسم ایجاد کی ان کی دیکھا دیکھی ہندوؤں نے تلک ایجاد کیا کہ جب کوئی ہندو مذہب قبول کرے تو باقی رسومات کے ساتھ اس کے ماتھے پر صنوبر کا نشان لگایا جائے جسے وہ تلک کا نام دیتے ہیں۔ ہندوؤں اور دوسرے مذاہب سے منفرد ہونے کے لیے سکھوں نے اپنے لیے پانچ نشان مقرر کیے۔ کیس‘ کرپان‘ کلائی میں کڑا‘ جیب میں کنگھا اور کچھا اپنا مذہبی نشان قرار دیا ہے۔ زرتشت جو ایران میں پائے جاتے ہیں چین‘ جاپان‘ ہندوستان‘ سری لنکا اور دیگر ممالک میں بسنے والے بدھ مت کے پیرو کاروں نے اپنے لیے ایک عہد تیار کیا ہے۔ ان کے مذاہب میں داخل ہونے والا۔ مخصوص الفاظ میں ایک عہد کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن اسلام ایسا دین ہے جس نے مسلمان ہونے کے لیے کلمہ پڑھنا لازم قرار دیا ہے۔ جس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ مسلمان ہونے والا اقرار کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا معبود‘ خالق‘ مالک‘ رازق‘ حاکم‘ حاجت روا اور مشکل کشا نہیں سمجھتا اور میرے راہنما‘ مرشد اور قائد حضرت محمد رسول اللہ {ﷺ}ہیں جو میرے لیے کامل واکمل نمونہ ہیں اور میں اسی کو دنیاوآخرت کی فوزوفلاح کا ذریعہ سمجھتاہوں اور اسی طریقہ پر زندگی بسر کروں گا جب اس عقیدے کا رنگ انسان کے کردار پر چڑھ جائے تو اسے کوئی خوف اور لالچ اپنے مقصد سے نہیں ہٹا سکتا۔ اس عقیدہ کو ” صِبْغَۃَاللّٰہِ“ کا نام دیا گیا ہے۔ جس کے مختلف شیڈ (Shade) ہیں جن کا تذکرہ سورۃ الاحزاب کی آیت 22اور سورۃ التوبہ کی آیات 20تا 22میں کیا گیا ہے۔ زرتشت اور بدھ کا عہد : بپتسمہ عیسائیوں کی وہ رسم ہے جو عیسائی مذہب میں شامل ہونے کے وقت ادا کی جاتی ہے اور اس رسم کی ادائیگی کے بغیر کوئی عیسائیت میں داخل نہیں ہوسکتا اور اس رسم کا تعلق ایک طرح سے عقیدہ کفارہ سے ہے۔ ان کے خیال میں اس رسم کی ادائیگی کے بعد انسان گناہوں سے بالکل پاک ہوجاتا ہے اسے مختلف انداز سے سر انجام دیا جاتا ہے۔ عام طور پر ایسے شخص کو جسے بپتسمہ دیا جائے ایک کمرے میں لٹا کر اس کے پورے جسم پر تیل کی مالش کی جاتی ہے جس کے بعد اسے غسل دیا جاتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے۔ کیا تم باپ بیٹے اور روح القدس پر مکمل ایمان رکھتے ہو؟ اس کے اقرار کرنے کے بعد اسے سفید کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور پھر وہ تمام اشخاص جو بپتسمہ لے چکے ہیں اجتماعی طور پر کلیسا میں جاتے ہیں اور عشائے ربانی میں شرکت کرتے ہیں۔ بپتسمہ کا ذکر انجیل مارک میں ملتا ہے۔ ” یوحنا لوگوں کو بپتسمہ دیتا اور لوگوں کو ان کے گناہوں سے پاک کرتا تھا۔ یروشلم کے بہت سے لوگ اس کے پاس آئے اور اپنے گناہوں کا اقرار کرکے بپتسمہ لیا اور یوحنا اس بات کا اقرار کرتا تھا کہ میرے بعد وہ شخص آئے گا جو مجھ سے زیادہ طاقت والا ہوگا اور تمہیں روح القدس سے بپتسمہ دے گا۔“ اس انجیل میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح نے یوحنا سے بپتسمہ لیا۔ عشائے ربانی : عیسائی عقیدہ میں اس رسم کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ بقول عیسائی حضرات اس رسم کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنفس نفیس محفل میں تشریف لاتے ہیں۔ اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ اتوار کو گرجا میں سروس اور پھر دعا وغیرہ کے بعد پادری باپ بیٹے اور روح القدس کی برکت سے دعا کرتا ہے اور روٹی شراب میں بھگو کر تقسیم کی جاتی ہے۔ تاکہ عقیدہ کفارہ کی یاد تازہ کی جائے اور یہ روٹی اور شراب عیسائی حضرات کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح کا گوشت اور خون بنتے ہیں۔ یہ عبادت اس یاد میں کی جاتی ہے کہ جب گرفتاری سے قبل یسوع مسیح نے حواریوں کے ساتھ کھانا کھایا تھا اور ان سے کہا کہ : And as they were eating, Jesus took bread, and blessed it, and brake it, and gave it to the discibles, and said Take, eat; this is my body. And he took the cup, and gave thanks, and gave it to them, saying, Drink ye all of it: For this is my blood of the new testament, which is shed for many for the remission of sins. ” جب وہ کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اور برکت دے کر توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا لو کھاؤ یہ میرا بدن ہے پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور ان کو دے کر کہا کہ تم سب اس میں سے پیو کیونکہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کے لیے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے۔“ (ادیان ومذاہب کا تقابلی مطالعہ، ڈاکٹر عبدالرشید، کراچی یونیورسٹی) مسائل : 1۔ ہدایت کا سرچشمہ صرف ملت ابراہیم ہے۔ 2۔ صحابہ کرام کا ایمان امت کے لیے کسوٹی ہے۔ صحابہ کے ساتھ حسد، بغض اور اختلاف رکھنے والا دین کا دشمن ہے۔ 3۔ صحابہ کے دشمنوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ حفاظت کرنے والا ہے۔ 4۔ خدا کی عبادت اور توحید کا رنگ دنیا کے ہر رنگ اور نشان سے خوبصورت ہے، پورے اخلاص کے ساتھ اسے اختیار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : شان صحابہ {رض}: 1۔ اللہ نے صحابہ کے ایمان کو آزمالیا۔ (الحجرات :3) 2۔ صحابہ ایمان کا معیار ہیں۔ (البقرۃ :137) 3۔ صحابہ اللہ کی جماعت ہیں۔ (المجادلۃ:22) 4۔ صحابہ {رض}کو براکہنے والے بیوقوف ہیں۔ (البقرۃ :13) 5۔ صحابہ {رض}دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے۔ (المجادلۃ:22) 6۔ صحابہ {رض}کو اللہ نے اپنی رضا کی ضمانت دی ہے۔ (البینۃ:8) 7۔ صحابہ {رض}بھی اللہ پر راضی ہوگئے۔ (البینۃ:8)