سورة یونس - آیت 76

فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا إِنَّ هَٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جب ہماری جانب سے سچائی ان پر نمودار ہوگئی تو کہنے لگے یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جادو ہے، صریح جادو۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 76 سے 77) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ سورۃ طہٰ میں تفصیل ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے واپسی پر شجر مبارکہ کے پاس روشنی کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ اے موسیٰ میں تیرا رب ہوں اور تو مقدس وادی میں داخل ہوچکا ہے۔ اس لیے اپنے جوتے اتار دے۔ میں نے تجھے نبوت کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ لہٰذا جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے اسے توجہ کے ساتھ سن، یقین کر! میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بس میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ بے شک قیامت آنے والی ہے جس کے برپا ہونے کو میں نے چھپا رکھا ہے۔ جب وہ برپا ہوگی تو ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلا دیا جائے گا۔ جو شخص قیامت پر یقین نہیں رکھتا تجھے اس کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ جو اپنی خواہش کے پیچھے چلے گا وہ برباد ہوگا پھر استفسار فرمایا کہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ جس پر میں ٹیک لگا لیتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لیے درختوں کے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے دوسرے کام بھی لیتا ہوں۔ ارشاد ہوا : اسے زمین پر پھینکیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا سانپ بن کر دوڑنے لگا۔ ارشاد ہوا۔ ڈرنے کی بجائے اسے پکڑ لو۔ یہ پھر لاٹھی بن جائے گا۔ اب اپنے ہاتھ کو اپنی بغل میں دبا کر باہر نکالو۔ جو صحیح سالم چمکتا ہوا دکھائی دے گا۔ یہ دوسری نشانی ہے۔ ان کے ساتھ فرعون کی طرف جاؤ بلاشبہ وہ بڑا باغی انسان ہے۔ سورہ طٰہٰ میں میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اے موسیٰ تو اور تیرا بھائی ان معجزات کے ساتھ فرعون کے پاس جاؤ اور میرے ذکر میں غفلت نہ کرنا بے شک فرعون بڑا سرکش اور باغی ہے۔ لیکن بات نہایت نرمی کے ساتھ کہنا ہوسکتا ہے وہ نصیحت قبول کرے اور ڈر جائے۔ دونوں بھائیوں نے اپنے رب سے عرض کی کہ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ ہم پر وہ زیادتی کرے گا۔ ارشاد ہوا ہرگز نہیں ڈرنا کیونکہ میری رفاقت تمہارے ساتھ ہوگی اور میں تمہیں دیکھتے ہوئے تمہارے ساتھ ہوں گا۔ جب حضرت موسیٰ اور جناب ہارون (علیہ السلام) فرعون کے پاس پہنچے تو انہوں نے اسے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق چلے گا وہ سلامت رہے گا یقیناً ہمیں اللہ تعالیٰ نے تیرے پاس بھیجا ہے اور ہم پر وحی کی گئی ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو جھٹلایا اور ٹھکرایا اسے شدید ترین عذاب ہوگا۔ ( طٰہٰ: 47۔48) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے مابین مکالمہ : ﴿قَالَ فَمَنْ رَّبُّکُمَا یَا مُوسٰی﴾[ طٰہٰ:49] فرعون : ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہ تمہارا رب کون ہے؟“ ﴿قَالَ رَبُّنَا الَّذیْ أَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی﴾[ طٰہٰ:50] حضرت موسیٰ (علیہ السلام) : ” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کی رہنمائی فرمائی۔“ ﴿قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْأُوْلَی﴾[ طٰہٰ:51] فرعون : ” اے موسیٰ جو پہلے لوگ گزر چکے ان کا کیا حال ہوگا۔“ ﴿قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی فِیْ کِتَابٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسٰی﴾[ طٰہٰ:52] حضرت موسیٰ (علیہ السلام) : ” ان کا علم میرے رب کے پاس ہے جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا۔“ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا تفصیلی تعارف کرایا اور اس کی توحید بیان فرمائی اور قیامت کے دلائل دیئے لیکن اس نے نہ صرف دلائل کو ٹھکرایا بلکہ معجزات دیکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی توحید اور موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کا انکار کرتے ہوئے اپنے حواریوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ دونوں بھائی جادو کے ذریعے تمہارے ملک سے تمہیں نکالنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ چیلنج دیا کہ ہم تمہارے مقابلے میں اس سے بڑا جادو پیش کریں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے بہت سمجھایا کہ جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ ان کے کام میں سچائی نہیں ہوتی۔ یہاں اس کا اختصار ہے کہ جب فرعون اور اس کے ساتھیوں کے پاس حق پہنچ چکا تو انہوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ جس کا جواب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دیا کہ حق بات کو جادو کہتے ہو، جادوگر تو کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا۔ گویا کہ دوسرے الفاظ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق ہے جو غالب آکر رہے گا۔ جادو کفر ہے : ﴿وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلَی مُلْکِ سُلَیْمَانَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلَکِنَّ الشَّیَاطِینَ کَفَرُوا یُعَلِّمُون النَّاس السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّی یَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ﴾[ البقرۃ:102] ” اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی مملکت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان ( علیہ السلام) نے تو کفر نہیں کیا تھا۔ یہ کفر تو شیطان کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے جو بابل میں ہاروت وماروت دو فرشتوں پر اتارا گیا۔ وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش میں ہیں تو کفر نہ کر۔“ آپ (ﷺ) کا فرمان ہے : ( لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ) [ الترغیب و الترہیب] ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (ﷺ) پر نازل ہوئی ہے۔“ مسائل : 1۔ کفار حق کو جادو قرار دیتے ہیں۔ 2۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو نصیحت کی۔ 3۔ جادوگر کا میاب نہیں ہوتے۔ تفسیر بالقرآن : فلاح نہ پانے والے لوگ : 1۔ جادو گرفلاح نہیں پاتے۔ (یونس : ٧٧) 2۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ بے شک ظالم فلاح نہیں پاتے۔ (الانعام :21) 3۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا اللہ کی پناہ مجھے میرے آقا نے بہتر ٹھکانہ دیا ہے یقیناً ظالم فلاح نہیں پاتے۔ (یوسف :21) 4۔ اگر اللہ کا ہم پہ احسان نہ ہوتا تو ہم زمین میں دھنسا دیے جاتے کافر فلاح نہیں پاتے۔ ( القصص :82) 5۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : 69۔ النحل :116) 6۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میرا رب خوب جانتا ہے اس کی جناب سے کون ہدایت لے کر آیا ہے اور کس کے لیے آخرت کا گھر ہے یقیناً ظالم فلاح نہیں پائیں گے۔ (القصص :37) 7۔ انہوں نے جادو کا کھیل کھیلا ہے اور جادوگر فلاح نہیں پاتے۔ (طٰہٰ:69)