ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ
پھر نوح کے بعد ہم نے (کتنے ہی) رسولوں کو ان کی قوموں میں پیدا کیا، وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے تھے اس پر بھی ان کی قومیں تیار نہ تھیں کہ جو بات پہلے جھٹلا چکی ہیں اسے (دلیلیں دیکھ کر) مان لیں، سو دیکھو جو لوگ (سرکشی اور فساد میں) حد سے گزر جاتے ہیں ہم اسی طرح ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر، ان کی عدیم المثال اور پر خلوص جدوجہد کا خاکہ پیش فرما کر ان کی قوم کا انجام بیان کرنے کے بعد سلسلہ نبوت کے تسلسل کا اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جن انبیاء کا ذکر کیا ہے وہ نہ صرف اپنی اپنی قوم کے رہبر و رہنما تھے بلکہ یہ عالی مرتبت شخصیات اپنے سے پہلے انبیاء کی اقوام کے بھی رہنما تھے۔ اس لیے قرآن مجید میں رسول محترم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ اے رسول! ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات تو بیان کردیئے گئے ہیں اور کچھ کے نہیں کیے کسی رسول کے پاس یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی معجزہ پیش کرتا۔ ( المؤمن :78) یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کے تذکرہ کے بعد فرمایا ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کے بعد انبیاء کی بعثت کا سلسلہ جاری کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ہود (علیہ السلام) قوم عاد میں جلوہ گر کیے گئے جو انہی کی قوم کا ایک نمائندہ اور معتبر قبیلہ تھا یہ لوگ عمان اور حضرموت کے درمیان ریت کے ٹیلوں والے علاقہ میں رہتے تھے جو سمندر کے کنارے واقع تھا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کے قبیلہ کا نام مغیث تھا۔ (قصص الانبیاء) حضرت ہود (علیہ السلام) کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) اپنی قوم ثمود میں مبعوث کیے گئے یہ قوم تبوک اور حجاز کے درمیان حجر کے علاقہ میں رہتی تھی جسے مدائن صالح بھی کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ خلیج عقبہ کے مشرق میں واقع ہے۔ قوم ثمود صنعت و حرفت میں اس قدر ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑ تراش، تراش کر بڑے بڑے بنگلے اور مکانات تیار کیے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ ( علیہ السلام) عراق کی سرزمین میں جلوہ گر کیے گئے۔ جناب ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد سلسلۂ نبوت اس وقت کی دنیا میں پھیلا دیا گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دور میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو حجاز مقدس میں ٹھہرایا۔ حضرت اسحق (علیہ السلام) کو فلسطین کے علاقہ میں قیام کا حکم دیا۔ یہ علاقہ اس وقت مصر، شام پر مشتمل تھا۔ اپنے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اردن کے گردو نواح میں لوگوں کی اصلاح کی ذمہ داری سونپی۔ خود خلیل اللہ ( علیہ السلام) فلسطین میں قیام پذیر ہوئے مگر وقفہ وقفہ سے ان مراکز کا دورہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے بعد بے شمار انبیاء ( علیہ السلام) مبعوث کیے گئے جن میں حضرت شعیب، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت ایوب، حضرت ذوالکفل، حضرت یونس، حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کئی پیغمبربھیجے گئے، پھر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے سب سے آخر میں خاتم النبیین سید المرسلین حضرت محمد (ﷺ) کو قیامت تک کے لیے رسول بنایا گیا۔ یہ انبیائے کرام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ٹھوس، واضح دلائل اور عظیم الشان معجزات کے ساتھ بھیجے گئے۔ مگر لوگوں کی غالب اکثریت نے انبیاء ( علیہ السلام) کا پیغام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جس وجہ سے ان کے دلوں پر گمراہی کی مہر ثبت کردی گئی۔ مسائل :1۔ انبیاء (علیہ السلام) اپنی اقوام کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے۔ 2۔ بہت سے لوگ دلائل کی موجودگی میں بھی ایمان نہیں لاتے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والوں کے دلوں پر مہریں ثبت کردی جاتی ہیں۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ نافرمانوں کے دلوں پر مہر ثبت کردیتا ہے : 1۔ ہم اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیا کرتے ہیں۔ (یونس :74) 2۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ (النساء :155) 3۔ اللہ کفار کے دلوں پر مہر ثبت کرتا ہے۔ (الاعراف :101) 4۔ جو لوگ ایمان لائے اور اس کے بعد کفر کیا ان کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی۔ (المنافقون :3) 5۔ اللہ ہر تکبر کرنے والے سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المومن :35) 6۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر ثبت فرما دی سو وہ نہیں جانتے۔ (التوبۃ:93)