أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ أَلَا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
یاد رکھو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کے لیے (اس کے سوا کوئی نہیں جسے حکم و تصرف میں کچھ دخل ہو) اور یہ بات بھی نہ بھولو کہ اللہ کا وعدہ حق ہے، (وہ کبھی ٹل نہیں سکتا) مگر ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو یہ بات نہیں جانتے۔
فہم القرآن : (آیت 55 سے 56) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ لوگوسنو! دنیا میں بھی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے اس کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور قیامت کے دن بھی وہی مالک و مختار ہوگا۔ کان کھول کر سن لو! قیامت کا برپا ہونا یقینی اور حق ہے۔ یہ اللہ کا سچا اور پکا وعدہ ہے جو ٹل نہیں سکتا۔ لیکن اکثر لوگ اس کا ادراک نہیں کرتے وہی موت و حیات کا مالک ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کے مرکزی مضامین تین ہیں۔ 1۔ ایمان باللہ۔ 2۔ ایمان با لرسا لۃ۔ 3۔ ایمان بالآخرۃ۔ ایمان کے تینوں عناصر اس طرح لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں کسی ایک کا انکار کرنا گویا کہ تینوں کا انکار کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے جس طرح ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کا صحیح اور پورا پورا صلہ قیامت کے بغیر مل نہیں سکتا۔ اسی طرح ایمان باللہ اور ایمان بالرسا لۃ کا منکر قیامت کے برپا ہوئے بغیر ٹھیک ٹھیک سزا نہیں پا سکتا۔ اس لیے ایمان بالآخرۃ لازم ہی نہیں بلکہ عین عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ اے لوگو! قیامت برپا کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ جو ہر حال میں پورا ہو کر رہے گا اور اللہ ہی موت وحیات کا مالک ہے۔ بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ شخص جو آخرت پر ایمان لائے اور اس کے لیے تیاری کرے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللَّہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّی لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِی ثُمَّ اسْحَقُونِی ثُمَّ ذَرُّونِی فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوا، فَجَمَعَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہِ )[ رواہ البخاری : باب حدثنا ابو الیمان] ” حضرت ابو سعید نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی گزرا ہے جسے اللہ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی اس نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو کہا میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا جب میں مرجاؤں مجھے جلا کر میری راکھ بنا دینا، پھر اسے ہواؤں میں اڑا دینا، انہوں نے ایسا ہی کیا اللہ عزوجل نے اسے زندہ فکیا، فرمایا تجھے اس کام پر کس چیز نے ابھارا ؟ کہنے لگا آپ کے ڈر نے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت کی لپیٹ میں لے لیا۔“ (عن سَہْلِ بن سَعْدٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُوْلُ یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی أَرْضٍ بَیْضَاءَ عَفْرَاءَ کَقُرْصَۃِ نَقِیٍّ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب یقبض اللہ الأرض] ” حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں میں نے نبی (ﷺ) سے سنا آپ (ﷺ) فرمارہے تھے، قیامت کے دن لوگوں کو سفید چٹیل میدان میں جمع کیا جائے گا زمین صاف ٹکیہ کی مانند ہوگی۔“ منکرین قیامت کو چیلنج : ﴿قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً أَوْ حَدِیْدًا۔أَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُوْرِکُمْ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ فَسَیُنْغِضُوْنَ إِلَیْکَ رُءُ وْ سَہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ مَتَی ہُوَ قُلْ عَسٰی أَنْ یَّکُوْنَ قَرِیبًا۔﴾[ بنی اسرائیل : 50، 51] ” کہہ دیجیے کہ تم پتھر، لوہا یا کوئی اور چیز ہوجاؤ جو تمہارے نزدیک بڑی ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں دوبارہ کون اٹھائے گا کہہ دیجیے جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تو تمہارے سر ہلائیں گے اور پوچھیں گے کہ ایسا کب ہوگا؟ کہہ دیجیے امید ہے کہ وہ جلد ہوگا۔“ مسائل :1۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کی ملکیت ہے۔ 2۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے لوگوں کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔ 3۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی کی طرف سب نے لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن :قیامت برپا ہو کر رہے گی : 1۔ سب نے اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ (یونس :56) 2۔ قیامت کے دن ہر کسی کو پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ (آل عمران :185) 3۔ اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تم اللہ کے ہاں لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ :281) 4۔ قیامت آنکھ جھپکنے کی طرح آجائے گی۔ (النحل :77)