سورة یونس - آیت 54

وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (آنے والا عذاب اس درجہ ہولناک ہے اور اس کا وقوع اس درجہ قطعی ہے کہ) اگر ہر ظالم انسان کے قبضہ میں وہ سب کچھ آجائے جو روئے زمین میں ہے تو وہ ضرور اسے اپنے فدیہ میں دے دے، اور دیکھو جب انہوں نے عذاب اپنے سامنے دیکھا تو (اپنی سرکشی و انکار یاد کر رکے) دل ہی دل میں پچھتانے لگے پھر ان کے درمیان (یعنی مومنوں اور سرکشوں کے درمیان) انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور ایسا کبھی نہ ہوگا کہ ان پر کسی طرح کی زیادتی واقع ہو۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ، مجرم دنیا اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے۔ سورۃ المنافقون آیت 10۔ 11میں بیان ہوا ہے۔ کہ جو لوگ مال اور اولاد کو دین سے مقدم جانتے ہیں جب ان پر موت وارد ہوتی ہے تو وہ اس حسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ کاش ہمیں کچھ مہلت مل جائے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ اور نیکی کرکے صالحین میں شمار ہوجائیں۔ لیکن موت کا وقت آنے کے بعد کسی کو مہلت نہیں دی جاتی۔ یہی خواہش مجرم کی قیامت کے دن ہوگی وہ اپنی ندامت چھپاتے ہوئے اس بات کی خواہش کرے گا کہ کاش مجھ سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ یہ پہلی دفعہ عذاب کو دیکھتے وقت مجرم کی ابتدائی کیفیت ہوگی۔ جوں ہی وہ عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اس کی ندامت اور ذلت چیخ و پکار میں بدل جائے گی۔ ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے واویلا کرے گا کہ ہائے افسوس میں رسول کا راستہ اختیار کرتا اور فلاں، فلاں کو اپنادوست اور خیر خواہ نہ سمجھتا۔ اس کے بعد اس کی حالت زار ایسی ہوگی کہ وہ خواہش کرے گا کہ کاش میری بیوی بچوں کو میری جگہ پکڑ لیا جائے کبھی کہے گا کہ میں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاؤں مگر وہ ہمیشہ اذیت ناک عذاب میں مبتلا رہے گا۔ قیامت کے دن مجرموں کی خواہش : ﴿یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْیَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِءِذٍم بِبَنِیَْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤِیْہِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ [ المعارج : 11تا14] ” مجرم چاہے گا کہ عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں، بیوی، بھائی اور کنبہ جس میں رہتا تھا اور تمام زمین فدیہ دے دے تاکہ اسے عذاب سے بچا لیا جائے۔“ ﴿یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیْہِ وَأُمِّہِ وَأَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہِ وَبَنِیْہِ [ عبس : 34تا36] ” اس دن انسان اپنے بھائی، ماں، باپ، بیوی اور اولاد سے بھاگے گا۔“ ﴿اَلاَّ تَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَاُ خْرٰی﴾[ النجم :38] ” کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔“ مجرم کی آخری خواہش : ﴿یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا﴾ [ النباء :40] ” کاش میں مٹی ہوجاتا۔“ مسائل : 1۔ قیامت کے دن مجرم عذاب سے بچنے کے لیے پوری دنیا کا مال فدیہ کے طور پر دینے کے لیے تیار ہوگا۔ 2۔ قیامت کے روز مجرم اپنی پشیمانی چھپانے کی کوشش کریں گے۔ 3۔ قیامت کے روز انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوگا۔ ٤۔ قیامت کے روز کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی عدالت کے اصول : 1۔ اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (یونس :54) 2۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (الزمر :69) 3۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو پورا پورا اجر دے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ:281) 4۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی سفارش قبول نہ ہوگی۔ (البقرۃ :48) 5۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں خریدو فروخت، دوستی اور کسی کی سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ :254) 6۔ اس دن عدل وانصاف کا ترازو قائم کیا جائے گا اور کسی پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء :47)