قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
(اے پیغمبر) تم کہہ دو (یہ معاملہ کچھ میرے اختیار میں نہیں کہ بتلا دوں کب واقع ہوگا) میں تو خود اپنی جان کا بھی نفع نقصان اپنے قبضہ میں نہیں رکھتا۔ وہی ہوتا ہے جو اللہ نے چاہا ہے، ہر امت کے لیے (پاداش عمل کا) ایک مقررہ وقت ہے اور جب وہ وقت آ پہنچتا ہے تو پھر نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے۔
فہم القرآن : ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) سے بار بار عذاب لانے کا مطالبہ کرنے پر کفار کو اس کا جواب۔ کفار اور مشرکین کا ابتدا ہی سے انبیائے کرام کے ساتھ یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ان سے ایسے مطالبات کرتے ہیں جن کا تعلق انبیاء کی نبوت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن منکرین نبوت انبیاء سے اس لیے اپنے مطالبات منوانے پر زور دیتے تھے تاکہ عوام الناس کو ذہنی طور پر الجھا کر یہ مغالطہ دیا جائے کہ اگر یہ شخص واقعی اللہ کا رسول ہوتا تو ہمارا مطالبہ پورا کردیتا۔ اگر یہ ہمارا مطالبہ پورا کر دے تو ہم اپنی قوم کے ساتھ مل کر اس کے دست و بازو بن جائیں گے۔ لیکن یہ شخص ہمارا مطالبہ پورا کر نہیں سکتا خوامخواہ نبوت کا دعویٰ کررہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ کفار کے اس پروپیگنڈہ کا مختلف انداز سے جواب دیا گیا جس کا ایک جواب یہ بھی ہے۔ اے رسول (ﷺ) ! ان سے واشگاف الفاظ میں فرمائیں کہ میں نے کبھی خدا کی خدائی میں حصہ دار ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ میرا اعلان تو یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں میں وہی کچھ تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں جس کا مجھے اللہ حکم دیتا ہے۔ خدا کی خدائی کے سامنے میں اس قدر بے بس اور بے اختیار ہوں کہ میں اپنے بارے میں بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ نفع اور نقصان کے بارے میں میرے رب کے فیصلے ہیں جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے۔ جہاں تک تمہارا یہ مطالبہ ہے کہ میں اللہ کا عذاب لے آوں یہ بھی میرے رب کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ تمہارے مطالبہ کی وجہ سے اشتعال میں آکر وقت مقرر سے پہلے عذاب نہیں لاتا۔ کیونکہ وہ بندوں پر نہایت مہربان اور ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرنے والا ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اس نے ہر فرد اور قوم کے فیصلے کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ بے شک کوئی فردیا قوم اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دن، رات چیلنج کرے اس کے باوجود مقررہ وقت سے پہلے اس قوم کا فیصلہ نہیں کیا جاتا البتہ جب فیصلے کا وقت آجاتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو آگے پیچھے نہیں کرسکتی۔ یہاں واضح الفاظ میں نبی اکرم (ﷺ) سے کہلوایا گیا ہے۔ کہ آپ خود اعلان فرمائیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ لیکن فرقہ پرستی کا برا ہو۔ یہاں بھی ایک مفسر لکھتا ہے کہ آیت کا مقصد کفار کی یا وہ گوئیوں کو ختم کرنا ہے اور یارلوگوں نے اس آیت کی آڑ لے کر حضور رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین (ﷺ) کے فضائل و کمالات کا انکار شروع کردیا اور ایسی اناپ شناپ باتیں کرنے لگے جن سے دین و دانش دونوں شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ حضور کچھ نہیں دیتے، حضور کچھ نہیں کرسکتے۔ بارگاہ رسالت میں اپنے دکھ، دردوں کی فریاد کرنا شرک ہے وغیرہ۔ رسول اکرم (ﷺ) کا اعلان : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ﴿ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ﴾دَعَا النَّبِیُّ (ﷺ) قُرَیْشًا فَاحْبَتَمَعُوْا فَعَمَّ وَخَصَّ فَقَالَ یَا بَنِیْ کَعْبِ ابْنِ لُؤَیٍّ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ مُرَّۃََ ابْنِ کَعْبٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِیَا بَنِیْ عَبْدِ شَمْسٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُم مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ ہَاشِمٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلَبِ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ یَا فَاطِمَۃُ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا غَیْرَاَنَّ لَکُمْ رَحِمًا سَاَبُلُّہَا بِبِلالِھَا) [رواہ مُسْلِمٌ وَ فِی الْمُتَّفَقِ عَلَیْہِ] قَالَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ اِشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَ یَا بَنِیْ عَبْدِمَنَافٍ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَا عَبَّاسُ ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَا شِئْتِ مِنْ مَالِیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ“ تو آپ (ﷺ) نے قریش کو دعوت دی وہ جمع ہوگئے۔ آپ نے ان کے خاص و عام سبھی کو دعوت دی‘ آپ نے فرمایا‘ اے بنو کعب بن لُوْی ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ اے بنو مرہ بن کعب! تم اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ اے بنو عبد شمس! تم خود کو دوزخ سے بچاؤ اے بنی عبد مناف‘ بنی ہاشم‘ بنی عبدالمطلب تم اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ اے فاطمہ ! تو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا۔ میں تمہارے لیے اللہ کے ہاں کسی چیز کا مالک نہیں۔ اگرچہ تمہارے ساتھ قرابت داری ہے۔ اس رشتہ داری کا احترام رہے گا (مسلم) اور بخاری‘ مسلم میں ہے۔ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا‘ اے گروہ قریش ! تم اپنے آپ کو آزاد کرلو۔ میں تم سے اللہ کے عذاب سے کچھ دور نہیں کرسکتا اے بنی عبد مناف! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے رسول کی پھوپھی صفیہ ! میں تم سے اللہ کے عذاب سے کچھ دور نہیں کرسکتا۔ اے فاطمہ بنت محمد! تو مجھ سے جس قدر چاہے مال کا سوال کرلے لیکن میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا۔“ آپ (ﷺ) نے بے بس ہو کر مکہ سے ہجرت کی : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ حَمْرَاء الزُّہْرِیِّ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ (ﷺ) وَاقِفًا عَلَی الْحَزْوَرَۃِ فَقَالَ وَاللَّہِ إِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللَّہِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللَّہِ إِلَی اللَّہِ وَلَوْلاَ أَنِّی أُخْرِجْتُ مِنْکِ مَا خَرَجْتُ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب، باب فی فضل مکۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عدی بن حمراء زہری کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو ٹیلے پر کھڑے ہوئے دیکھا، آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یقیناً تو اللہ تعالیٰ کی بہترین زمین اور محبوب ترین زمین میں سے ہے اگر مجھے یہاں سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا۔“ مسائل :1۔ نبی اکرم (ﷺ) اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں تھے۔ 2۔ آپ اتنا ہی اختیار رکھتے تھے جتنا اللہ نے عطا کیا ہوا تھا۔ 3۔ ہر ایک کا وقت معین ہے۔ 4۔ جب کسی کا وقت آجاتا ہے تو اس میں کمی و بیشی نہیں کی جاتی۔ تفسیر بالقرآن :انبیاء ( علیہ السلام) نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے : 1۔ آپ (ﷺ) کہہ دیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (یونس :49) 2۔ آپ (ﷺ) فرما دیں کہ میں تمہارے نفع ونقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ (الجن :21) 3۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا کہ میں اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ (الاعراف :188) 4۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی بیویوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔ (التحریم :10) 5۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا مجھے اللہ کے سامنے کسی قسم کا اختیار نہیں ہے۔ (الممتحنۃ:4) 6۔ کہہ دیجئے اگر اللہ عیسیٰ بن مریم اور اس کی والدہ کو ہلاک کرنا چاہے تو انہیں کون بچا سکتا ہے ؟ (المائدۃ:17) 7۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بھلائیاں جمع کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ ہوتا۔ (الاعراف :188)