أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کے سرہانے موت آ کھڑی ہوئی تھی اور اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے پوچھا تھا "میرے بعد تم کس کی عبادت کروگے؟ انہوں نے جواب دیا "اسی خدائے واحد کی جس کی تو نے عبادت کی ہے اور تیرے بزرگوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق نے کی ہے اور ہم اس کے حکموں کے فرمانبردار ہوئے۔
فہم القرآن : (آیت 133 سے 134) ربط کلام : پہلی آیات میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وصیتکا بیان تھا۔ جس کا اہل کتاب انکار کرتے ہیں۔ لہٰذا ان سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا تم ان کی وفات کے وقت موجود تھے کہ انہوں نے یہ نصیحت نہیں کی تھی؟ انبیائے عظام کے ذمہ قوموں کی رہنمائی کا فریضہ ہوا کرتا ہے۔ اس جان کٹھن اور ہمہ وقت بھاری ذمہ داری کے باوجود انبیاء اپنے اہل خانہ کی ذمہ داریوں سے لمحہ بھر کے لیے غافل نہیں ہوا کرتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی کہ ان کی ذات اہل خانہ اور لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ثابت ہوں۔ اس بارے میں وہ اس قدر فکر مند ہوتے تھے کہ جب موت کا فرشتہ سرہانے کھڑا جان قبض کرنے کی اجازت لے رہا ہوتا۔ جن نازک لمحات میں انسان کی نگاہیں دنیا کی بجائے اگلی منزل پر مرکوز ہوتی ہیں دوسری کوئی چیز سوجھائی نہیں دیتی۔ انبیاء اس وقت بھی اپنی ذمہ داری کے بارے میں فکر مند ہوتے تھے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اسی فکر مندی میں اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے ایک عہد لے رہے ہیں کہ جان پدر! میرے چل چلاؤ کا وقت آن پہنچا ہے۔ لیکن میں اس اطمینان اور تسلی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں وعدہ کیجیے کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی دعاؤں اور کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ان کی اولاد بیک زبان عرض کرتی ہے ہم آپ کے معبود اور اپنے عظیم آباء حضرت ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق (علیہ السلام) کے معبود کی عبادت کیا کریں گے۔ ان سب کا ایک ہی معبود تھا لہٰذا ہم ایک ہی الٰہ کے تابع فرمان اور اس کی عبادت کریں گے۔ اس واقعہ میں بتلایا جا رہا ہے کہ والدین کو اپنی ذمہ داریوں کا کس قدر خیال رکھنا چاہیے۔ ساتھ ہی اہل کتاب کو باور کروایا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اپنے آپ کو اس عظیم خاندان کا وارث سمجھتے ہو تو تمہیں صالح اولاد کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے باپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت اور عہد کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کا عقیدہ توحید پر مبنی اور کردار اللہ تعالیٰ کے فرمان کے تابع تھا۔ اگر تم نے اپنے عقیدہ اور کردار کو ان جیسا بنانے کی کوشش نہ کی اور آخرالزمان نبی {ﷺ}پر ایمان نہ لائے تو قیامت کے دن محض عقیدت اور نسبت کچھ کام نہ آسکے گی اور دنیا میں بھی کوئی قوم صرف حسب ونسب کی بنیاد پر عزت و رفعت حاصل نہیں کرسکتی۔ نبی معظم {ﷺ}نے اس اصول کا اس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ (۔۔ مَنْ بَطَّأَ بِہٖ عَمَلُہٗ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء ] ” جو اعمال کی وجہ سے پیچھے رہ گیا اسے حسب ونسب کام نہیں دے گا۔“ اس کے ساتھ یہ اصول بھی بیان فرما دیا گیا کہ کوئی کسی کے اعمال کی وجہ سے نہ پکڑا جائے گا اور نہ بخشا جائے گا اور یہی اصول اسلامی حکومت کے لیے لازم قرار پایا۔ رسول اللہ {ﷺ}کا ارشاد ہے : (لا يُقادُ والدٌ بوَلَدِه ) [ مسند احمد : کتاب مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ ]” باپ کے بدلے بیٹا نہیں پکڑا جا سکتا۔“ مسائل :1۔ ماں باپ کو اپنی اولاد سے توحید اور خدا کی عبادت کا عہد لینا چاہیے۔ 2۔ تمام انبیاء ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔ 3۔ لوگوں کو قیامت کے دن ان کے اپنے اپنے اعمال کے بارے میں سوال ہوگا۔ تفسیر بالقرآن :اللہ کا پسندیدہ دین اسلام ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ (المائدۃ:3) 2۔ اللہ تعالیٰ اسلام کی دعوت دیتا ہے۔ (یونس :25) 3۔ اسلام فرمانبرداری کا نام ہے۔ (آل عمران :83) 4۔ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونا چاہیے۔ (البقرۃ:208) 5۔ اسلام پر ہی مرمٹنا چاہیے۔ (آل عمران :102) 6۔ یوسف (علیہ السلام) بھی یہی دعا کرتے تھے۔ ( یوسف :101)